اسلام آباد : سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن کی طرف سے انکشافات کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے میرے سامنے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نام نہیں لیا اگر میں جھوٹا ہوں تو جوڈیشل کمیشن بنادیں۔
نجی ٹی وی کو اپنے تازہ انٹرویو میں بشیر میمن نے کہا کہ وزیراعظم نے نہیں وزیر قانون نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نام لے کر بات کی۔ وزیراعظم نے میاں نواز شریف ، میاں شہباز شریف ، مریم نواز ، حمزہ شہباز ، سلمان شہباز ، خواجہ آصف ، شاہد خاقان عباسی ، رانا ثنا اللہ ، خورشید شاہ ، نفیسہ شاہ ، مصطفیٰ نواز کھوکھر ، اسفند یار ولی کے علاوہ ارسلان افتخار چوہدری،چوہدری قمر زمان سابق چیئرمین نیب کا نام لے کر بات کی تھی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سابق چیئرمین نیب چودھری قمر زمان کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا تھا کہ ہائی کورٹ کی کوئی ججمینٹ ہے اس پر بات نکلتی ہے تو اس پر پرچہ بنادو جس پر میں نے کہا اس طرح سے تو ہر کسی کے خلاف ہی پرچے بننا شروع ہوجائیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے کہا آپ اچھے افسر ہو ، جرأت دکھانا ہوگی، اس وقت میں نہیں جانتا تھا کیس کیا ہے بعد میں شہزاد اکبر مجھے فروغ نسیم کے دفتر لے گئے۔ وزیراعظم ، فروغ نسیم ، شہزاد اکبر اور اعظم خان سے تمام میٹنگز چند گھنٹے کے دورانیے میں ہوئیں۔
بشیر میمن نے کہا پرائم منسٹر آفس گیٹ کا ریکارڈ بتادے گا میں کتنی مرتبہ گیا کبھی تو ہفتے میں 3مرتبہ بھی گیا۔ جوڈیشل کمیشن بنادیں سچ اور جھوٹ ثابت ہو جائے گا۔
سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن نے ایک مرتبہ پھر دوہرایا کہ اس وقت پوری حکومت میری کردار کشی پر لگی ہوئی ہے اور سب کا مقصد مجھے گندا ثابت کرنا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ مجھ سے وزیراعظم نے قاضی فائز عیسیٰ کا نام لے کر بات نہیں کی ہے یہ بات وزیر قانون نے کی جس پر میں نے کہا وزیراعظم نے مجھ سے تو نہیں کہا اگر کہتے تو میں ان کو اسی وقت کہہ دیتا یہ ہمارا کام نہیں ہے یہ کام سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے وہ یہ کرسکتی ہے اگر وزیراعظم مجھ سے یہ بات کرتے تو میں بالکل ان کو سمجھانے کی کوشش کرتا۔
عارف نقوی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں بشیر میمن کا کہنا تھا کہ عارف نقوی کے حوالے سے وزیراعظم نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ نے اس کے ساتھ زیادتی کی ہے تمہیں پتہ نہیں ہے میرا دوست ہے وہ اور یہ بات وزیراعظم نے ایک مرتبہ نہیں تین سے چار مرتبہ کہی وہ بھی تین سے چار مرتبہ کی ملاقاتوں میں ۔ عارف نقوی وزیراعظم ہاؤس بھی آیا کرتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ شنگھائی الیکٹرک ، کے الیکٹرک کو لینے آرہا تھا اس وقت سوئی سدرن کے کے الیکٹرک کی طرف 87 بلینز روپے رہتے تھے مگر وہ اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے ۔جس پر میں نے ایس ای سی سی کو خط بھی لکھا تھااور اگر یہ ریکوری ہوجاتی تو میری زندگی کی بڑی ریکوری ہوتی ۔
شہباز گل کی پریس کانفرنس اور گھی ملزکے حوالے سے انہوں نے کہا شہباز گل کی مہربانی ہے کہ انہوں نے میری گھی مل کی ایڈورٹائزمنٹ کرکے مجھے خرچے سے بچالیا ۔ لوگ اپنی پروڈکٹ کی پبلسٹی پر ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں لیکن میری گھی مل کی انہوں نے فری میں پبلسٹی کردی۔
انہوں نے کہا کہ یہ میری زمینوں کا ریکارڈ نکلوارہے ہیں بالکل نکلوالیں ، میرے اثاثے ایف بی آر میں ڈیکلیئر ہیں ۔ اس وقت پوری حکومت میری کردار کشی پر لگی ہوئی ہے اور سب کا مقصد مجھے گندا ثابت کرنا ہے ۔
چوہدری اعتزاز احسن کے الزام پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا میں ان کی دل سے عزت کرتا ہوں ان کی کسی بات پر کوئی کمنٹ نہیں کروں گا ۔
بلاول بھٹو کی تنقید پر انہوں نے کہا یہ ان کی مہربانی کہ انہوں نے مجھے یاد کیا وہ شہید محترمہ کے صاحبزادے ہیں اور مجھ سمیت جو لوگ بھی بلاول سے محبت کرتے ہیں وہ شہید محترمہ کی وجہ سے کرتے ہیں ۔
دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں کہا کہ وزیر اعظم کی ذات پر الزام لگائیں، ہیڈلائنز بنائیں اور بعد میں آرام سے یو ٹرن لے لیں، ٹی وی چینل سے کہو تو میڈیا کی آزادی میں خطرہ اور اگر مہمان سے پوچھو تو سیاسی انتقام کا نعرہ، یہ سلسلہ بند ہونا ہو گا۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے بھی اپنے پیغام میں کہا کہ شکر ہے میمن صاحب کو اپنی غلطی کا اندازہ ہو گیا۔