اسلام آباد: متحدہ مجلس عمل کے صدر مولانا ا فضل الرحمن نے دعوی کیا ہے کہ تیرہ مئی کو ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع مینار پاکستان کے میدان میں کیا جائے گا اور ناچ گانے اور برقی قمقوں میں دس ہزار کو ایک لاکھ بتانے والوں کو دکھایا جائے گا کہ اسے اسلامیان پاکستان کاجلسہ کہتے ہیں ،مشرف دور میں جب وزیر اعظم کا الیکشن لڑنے لگا تو مشرف نے کہاکہ امریکہ اور مغرب نہیں چاہیتں آپ وزیر اعظم بنیں ، امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہاکہ ترکی کی طرح پاکستان میں بھی عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مہروں کو شکست دی جائے گی.
تفصیلات کے مطابق کنونشن سنٹر اسلام آباد میں ایم ایم اے قومی ورکرز کنونشن میں ایم ایم اے کی پانچ بڑی دینی جماعتوں کے قائدین نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کرعہد کیا کہ آئندہ الیکشن میں مذہبی ووٹ کو تقسیم نہیں ہونے دیا جائے گا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام ف کے امیر مولانا فضل الرحمن نے متحدہ مجلس عملکے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ 13 مئی کو مینار پاکستان پر ملک کیتاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہوگا جس میں ملک کے ہر کونے سے قافلوں کا رخ مینار پاکستان پر ہوگا ،10 ہزار کو ایک لاکھ کہنے والوں کو بتائیں گے کہ عوام کا انتخاب کیا ہے اور اس کا جم غفیر کیا ہوتا ہے انہوں نے کہاکہ 25000ہزار افراد کو لاکھوں کا جلسہ بتایا گیا ۔ملک کے وجود کو70 سال ہوچکے، ہم صرف ایک منزل پاکستان کا حصول ہی حاصل کرسکے 70 سال سے جو قوتیں اس ملک پر حکمران ہیں وہ بیرونی ترجیحات کے حامل غلامانہ ذہنیت کے عکاس ہیں اس ذہنیت نے پاکستان کو ترقی دی نہ ہی عوام کا معیار زندگی بلند کیا جن قوتوں کو ہم نے ملک کے سیاہ و سفید کا مالک سمجھا انہوں نے ملک کو دو لخت کیا انہی قوتوں نے پاکستان کو اس کے اساسی نظریے سے دور کیا۔
پاکستان
جسے اسلامی ریاست کے طور پر متعارف کرانا تھا اسے لبرل ریاست کے طور پر متعارف کرایا گیا ہمیں اس بات پر سوچنا ہوگا کہ پاکستانآج بھی آزاد نہیں ہے مولانا فضلا لرحمن نے انکشاف کیاکہ 2002ءمیں جب میں نے وزیراعظم کا الیکشن لڑا تو مشرف نے کہاکہ آپ بیٹھ جائیں آپ کو امریکہ اور مغرب قبول نہیں کرے گا اس وقت میں نے مشرف سے کہا کیا یہ آزادی ہے جس پر سابق صدر نے کہاکہ ہم تسلیم کریں ہم غلام ہیں مولانا نے کہاکہ میں نے مشرف کو کہاکہ آپ کے آباو¿ اجداد کا درس ہے کہ غلامی قبول کریں لیکن مجھے میرے آباو¿ اجداد نے غلامی کے خلاف لڑنے کا درس دیا ہے 70 سال میں پاکستان کو بحرانوں کے سوا کچھ نہیں دیا گیا آئینی، سیاسی، معاشی بحران دیئے گئے اور یہ بحران آپس میں ایسے الجھ گئے ہیں کہ ان سے نکالنے کے لیے قوم کو نئے مسیحا کی ضرورت ہے ماضی کے حکمران اب پٹ چکے، اب یہ وقت متحدہ مجلس عمل کا ہے ہم اس حوالے سے سب اہل علم و دانش اور نظریہ پاکستان کے حامیوں کو دعوت دے رہے ہیں دین دار قوتوں کودعوت دے رہے ہیں کہ آئو ہمارے ساتھ چلو اب پس پردہ قوتیں ڈھکی چھپی نہیں رہیں، جو دینی قوتوں کے مقابلے میں سامنے آرہی ہیں انہیں دعوت دیتا ہوں کہ ایجنسیوں کی بات ماننے کے بجائے ہمارے ساتھ مل بیٹھیں ستر سال میں پاکستان کو تقسیم کیاگیا اور کالک مذہبی اور سیاسی جماعتوں پر ملی گئی سیاست دانوں، قوم پرستوں میں اختلاف رائے ہوتا ہے لیکن اگر سیکولر طبقے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوسکتے ہیں تو مذہبی جماعتیں کیوں اکٹھی نہیں ہوسکتی اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتب فکر اکٹھے ہیں اس پر تو کسی کو اعتراض نہیں ہے 1973ء سے آج تک کس نے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر کیوں عمل درآمد نہیں کررہے انہوں نے نام لیئے بغیر کہاکہ اپنی ناکامی کا ملبہ کیوں مذہبی جماعتوں پر ڈالتے ہو ہم آئین و قانون کے راستے پر چل کر ملک کے حالات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں آج سیاست، پارلیمنٹ، دفاع، معیشت بین الاقوامی دباو¿ کا شکار ہے جب تک ہم ان شعبوں کو عالمی دباو¿ سے نہیں نکالتے خود مختار ملک نہیں بن سکتے معیشت کی بہتری کے لئے بنیادی اصول تبدیل کرکے ملک کو معاشی طور پر مضبوط بناسکتے ہیں خارجہ پالیسی بنانے والے ماہرین اور، ناکام خارجہ پالیسی کے نتیجے میں نااہل کسی کو کیا جاتا ہے یہ عجیب سیاست ہے امریکہ کو ڈھیر میں نے اپنی خارجہ کمیٹی میں کیا، روس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں بھی ہم نے کردار ادا کیا ۔2005ء میں چین نے اقتصادی روڈ میپ کا مرتب کیا تو انہیں پاکستان سے اقتصادی راہداری کا مشورہ میں نے دیا سی پیک کی بنیاد ہم نے رکھی جو نظر نہیں آتی مشرف کو اسوقت بھی کہاتھاکہ میرے وزیراعظم بننے پر دباو¿ مین کیوں ہیں اگر 6 ماہ میں یورپ کو رام نہ کرسکا تو مستعفی ہوجاو¿نگا آج ملک میں ایک نظریاتی فرق واضح ہورہا ہے سیکولر طبقے کی وجہ سے ملک میں بحران آئے اور ملک دولخت ہوا ہمیں تعلیمی پالیسی کوتبدیل کرنا کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ نظام تعلیم سے مسلم نوجوان پیدا نہیں ہورہا تاثر دیا جارہا ہے کہ مدارس عصری و فنی تعلیم کے مخالف ہیں جو غلط ہے اس کا آغاز علی گڑھ مدرسہ سے ہوا جس کے ردعمل میں مدارس قائم ہوئے، برصغیر سے باہر آج بھی مدرسہ و سکول ایک ہی ہیں دینی مدارس میں مڈل سے ایف اے تک تعلیم دی جارہی ہے لیکن بتائیں سرکاری سطح پر کتنے دینی درجے تعلیم میں دیئے جارہے ہیں مولانا فضل الرحمن نے مزید کہاکہ ہم عصری و دینی تعلیم میں تفریق کے قائل نہیں ہیں، علم علم ہی ہے ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ملکی نظام کو اپنے ہاتھ میں لیں اور واضح مستقبل متعین کریں ہماری خارجہ پالیسی خطرناک حد تک ناکام ہوچکی ہے آج امریکہ اور انڈیا پاکستان کے خلاف متحد ہوچکے ہیں، اسلامی دنیا آج آپ کی معاونت کی سکت نہیں رکھتی افغانستان جل چکا، لیبیا کے ٹکڑے ہوگئے، شام پر حملے ہورہے ہیں ، عراق تباہ ہوچکا ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بھی اچھے نہیں ہیں گزشتہ سال بھی کہا تھا کہ بین الاقوامی ایجنڈا واضح ہوچکا ہےملک کی تقسیم کرنےسے پہلے سیاسی بحران پیدا کیا جاتا ہے، پھر عدم استحکام کا شکار کیا جاتا اور اس کے بعد استعمار اپنا ایجنڈا واضح کرتا ہے ہمیں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا ۔انہوں نے کہاکہ دینی وسیاسی قوتوں سے بڑھ کر کوئی پاکستانی نہیں ہے کیونکہ ہم ہی اس کی بقاءاور بہتری کا سوچتے ہیں، لکیر کے فقیر نہیں ہیں جذباتی کی سیاست دیکھ لی، ہمیں سنجیدہ سیاست پاکستان کو دینا ہے انسانی حقوق اسلام میں اولین ترجیح ہے، جو غیر مسلم پاکستانیوں کے حق تلفی کی کوشش کرینگے اسکا راستہ ہم روکیں گے مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں بننے والے نئے اتحاد پر تنقید کرتے ہوئے کہا ایجنسیوں کی بات مت مانیں اگر سیکولر اکٹھے ہوسکتے تو دینی لوگ کیوں نہیں کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ترکی کی طرح یہاں بھی عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مہروں کو شکست دیں گے اور ملک کاپیسہ لوٹنے والوں کو حرمسے نکال کر لائیں گے ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگانے والے بتائیں انہوں نے ووٹرز کو عزت دی ۔ہم اس ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں اس کے علاوہ ہمارا کوئی مقصد نہیں ہے پاکستان ایک نظریہ، ایک فلسفہ اور ایک منزل کا نام ہے جس کی خاطر کروڑوں لوگوں نے قربانی دی تحریک پاکستان کا مقصد ایسٹ انڈیا کے خلاف مزاحمت سیکولر ازم نہیں اسلامی ملک کے لئے تھی ایم ایم اے حکومت ملی تو عوام سوئے گی ہم پہرہ دینگے، ہر بچے کے ہاتھ میں کتاب ہوگی ہم چال بازی، دروغ گوئی اور جھوٹ و فریب کو مسترد کرتے ہیں سراج الحق نے کہاکہ سیاستدان گالی گلوچ کا سہارا لیتا ہے نہ فحاشی عام کرتا ہے، وہ قوم کو منزل دکھاتا ہے کرپشن کے گر نہیں بتاتاہماری سیاست نفرت نہیں محبت کی سیاست ہے،ہم توڑنے والے نہیں جوڑنے والی سیاست کرتے ہیں ہم لڑائی کسی فرد یا خاندان سے نہیں ہماری لڑائی سیاسی، اخلاقی اور معاشی کرپشن کے خلاف ہے ان سیاستدانوں کو قوم نے 70 سال تک آزمایا، مارشل لا کی حکومت ہوتو تب بھی یہی جاگیر دار براجمان ہوتے ہیں اگر نام نہاد جمہوریت ہو تب بھی انہی کے وارے نیارے ہوتے ہیں ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن اس کے باوجود کیوں عوام آج دو وقت کی روٹی کو ترس رہی ہے اس کی وجہ کرپٹ حکمران ہیںامیر مرکزی جمعیت اہلحدیث سینیٹر ساجد میر نے کہا یہاں معیشت اور کرپشن کے سیاسی نعرے ہیں اسلام کا ہم لگائیں گے کیونکہ ہمارا مرکز مکہ و مدینہ ہیں نائب صدر ایم ایم اے علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہااگر ایم ایم اے اپنا پیغام عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئی تو وزیر اعظم اسی کا ہوگا لیاقت بلوچ نے ایم ایم اے کامنشور پیش کیا ۔