واشنگٹن: امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ ایف بی آئی میں کام کرنے والی 38 سالہ مترجم ڈینیلا گرینے نے داعش میں شمولیت اختیار کرنے والے سابق جرمن گلوکار سے شام میں جا کر شادی کی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ٹاپ سیکیورٹی کلیئرنس کے بعد ڈینیلا کو تفتیش کی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں جنوری 2014 میں اسے سابق جرمن ریپر اور شدت پسند تنظیم داعش کے ترجمان ڈینس کسپرٹ کے کیس میں شامل کیا گیا تھا۔
اس کا کام ڈینس کسپرٹ کی انٹرنیٹ سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور اس کی جاسوسی کرنا تھا۔ شدت پسند تنظیم داعش میں شمولیت سے قبل کسپرٹ جرمنی میں ڈیسو ڈاگ کے نام سے گانے ری مکس کر کے بجاتا تھا جبکہ داعش میں شمولیت کے بعد اس کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں اس نے سابق امریکی صدر براک اوباما کو دھمکیاں دی تھیں۔
اس کے بعد وہ شام چلا گیا تھا اور اس نے اپنا نام ابو طلحہ ال المانی رکھ لیا تھا۔ ابو طلحہ کے پیغامات اور سرگرمیوں کی کئی مہینوں تک جاسوسی کرنے کے بعد گرینے ایف بی آئی کو آگاہ کیے بغیر اس سے شادی کے لیے شام چلی گئیں۔ سی این این کے مطابق شادی کے چند ہفتوں بعد ہی گرینے کو محسوس ہوا کہ انہوں نے غلطی کر دی ہے اور وہ وہاں سے فرار ہو کر واپس امریکا آ گئیں جہاں انہیں فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا اور انہوں نے حکام کے ساتھ تحقیقات میں تعاون کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔
عدالت میں پیش کیے جانے والی دستاویزات میں گرینے کی جانب سے لکھی گئی ایک ای میل بھی تھی جو انہوں نے شام سے امریکا میں ایک نامعلوم شخص کو لکھی تھی اور اپنے حالات سے آگاہ کیا تھا جبکہ اپنے فیصلے پر پچھتاوے کا بھی اظہار کیا تھا۔
انہوں نے عدالت کے سامنے غلط بیانی کرنے کا اعتراف کیا اور انہیں دو برس قید کی سزا سنائی گئی تھی اور انہیں گزشتہ برس رہائی ملی تھی۔ عدالتی دستاویز کے مطابق گرینے نے شام روانگی کے حوالے سے ایف بی آئی حکام کو جھوٹ بولا اور کہا کہ وہ جرمنی میں اپنے والدین سے ملاقات کے لیے جا رہی ہیں جبکہ انہوں نے ابو طلحہ کو اس کے خلاف ہونے والی تحقیقات کی مخبری بھی کر دی۔
دستاویز کے مطابق گرینے نے ابو طلحہ سے روابط بڑھانے کے لیے اسکائپ اور دیگر ایپس کا استعمال کیا۔ ابتدائی طور پر گرینے کا معاملہ خفیہ رکھا گیا تھا اور ان کے مقدمے سے متعلق زیادہ تر دستاویز عدالت نے سربمہر کر دی تھیں۔ تاہم پراسیکیوٹرز کی درخواست پر جج نے بعض دستاویز کو منظر عام پر لانے کی اجازت دی۔
امریکی محکمہ دفاع کا دعویٰ ہے کہ 15 اکتوبر کو شام کے شمالی شہر رقہ میں ہونے والے فضائی حملے میں ابو طلحہ مارا گیا تھا۔ اس سلسلے میں امریکی محکمہ خارجہ کے سابق اہلکار جان کربی کہتے ہیں یہ سارا معاملہ ایف بی آئی جیسے تحقیقاتی ایجنسی کے لیے باعث شرم ہے۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں