کالج کے سبزہ زار پر پھیلی سرمائی شام بہت ہی دلکش تھی۔ جوانی اور بے فکری نے سب کو مسحور کر رکھا تھا۔ کلاسوں کے اختتام پر ہونے والی سالانہ تقریب میں تمام طلبہ کے والدین بھی شامل تھے۔ سٹیج سے ایک ہی نام باربار پکارا جارہا تھا ’’ہیرلڈ ہولٹ‘‘۔ وہ تقریروں، فٹبال، گانا گانے اور پڑھائی کے تمام مقابلے جیت کر بہترین طالب علم قرار پایا تھا۔ اس سے گانا سنانے کی فرمائش کی گئی، وہ گارہا تھا۔ سب مستی میں جھوم رہے تھے مگر خود ہیرلڈ ہولٹ اداس تھا، تنہا تھا اور اپنے آپ کو غیرمحفوظ محسوس کررہا تھا۔ اس کی نم ناک آنکھیں طالب علم ساتھیوں کو دیکھ رہی تھیں جو اپنے والدین کے ساتھ بیٹھے تھے مگر خود اس کے اپنے والدین یہاں موجود نہ تھے۔ اپنے والدین کے بغیر یہ خوبصورت شام اسے جب بھی یاد آئی وہ ہمیشہ اداس ہوا۔ والد نے ہیرلڈ کو میلبورن کے بہترین کالج ’’ویسلے کالج‘‘ میں داخل کرایا تھا جہاں مستقبل کا ایک اور وزیراعظم ’’رابرٹ مینزیس‘‘ بھی زیرتعلیم رہا تھا۔ ہیرلڈ ہولٹ کے والدین میں طلاق ہوچکی تھی۔ جب اس کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ جنازے پر بھی نہیں گیا۔ والد کا بھی اپنے بیٹے سے کوئی خاص جذباتی تعلق نہ تھا۔ یونیورسٹی کے زمانے میں اسے ایک لڑکی ’’زارا‘‘ ملی۔ ہیرلڈ کو اپنی تنہائی ختم ہوتی محسوس ہوئی مگر چند سال بعد زارا اُسے چھوڑ کر لندن چلی گئی جہاں اس نے ایک برطانوی کپتان سے شادی کرلی۔ ہیرلڈ اس صدمے سے نڈھال ہوگیا مگر اس نے فیصلہ کیا کہ اسے آگے بڑھنا ہے، نمایاں ہونا ہے۔ اس نے قانون کی ڈگری امتیازی پوزیشن سے حاصل کی مگر آسٹریلیا میں معاشی بدحالی کے باعث کئی برس تک وکالت کے بجائے دوسرے عارضی کام کرتا رہا۔ جب وکالت شروع کی تو سب اس کے معترف ہوتے گئے۔ ہیرلڈ نے اپنے دن رات سیاست اور وکالت میں گزارنا شروع کردیئے۔ اسی دوران اس کی پرانی محبوبہ زارا نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی تھی۔ ہیرلڈ نے زارا سے شادی کرلی اور اس کے تین بچوں کو بھی قبول کرلیا۔ وہ 32 برس تک ملک کی سیاست کے افق پر روشن رہا اور چلتا چلتا سیاست کے آخری سرے تک جاپہنچا اور 1966ء میں آسٹریلیا کا 17واں وزیراعظم بن گیا۔ اس کے نمایاں کارناموں میں وائٹ آسٹریلیا پالیسی، آسٹریلیا کی معیشت کو تحفظ دینا، ریزرو بینک آف آسٹریلیا بنانا، آسٹریلیا میں معیشت کا ڈیسیمل نظام قائم کرنا وغیرہ شامل تھے۔ اُسے تیراکی کا بہت شوق تھا۔ جب وہ پانیوں کو چیرتا ہوا آگے بڑھتا تو ایک
آبی مخلوق معلوم ہوتا تھا۔ 17دسمبر 1967ء کو اتوار کا دن تھا جب اس نے اپنے پسندیدہ ساحل سے سمندر میں غوطہ لگایا۔ اس کے ساتھ دو حفاظتی گارڈ تھے۔ ساحل پر جدید سکیورٹی کے تمام لوازمات بھی موجود تھے۔ سمندر کا یہ علاقہ ہیرلڈ کا جانا پہچانا تھا۔ وہ مدتوں سے یہاں پانی کی لہروں پر تیرتا تھا مگر اس دن وہ غوطہ لگانے کے بعد کسی کو نظر نہ آیا۔ فوری طور پر نیوی، آرمی اور پرائیویٹ غوطہ خوروں کی بہت سی ٹیمیں پانی میں اتر گئیں۔ تلاش شروع کی گئی مگر ہیرلڈ کا کچھ پتا نہ چل سکا۔ آسٹریلیا کی تاریخ میں اپنے وزیراعظم کو سمندر میں تلاش کرنے کا سب سے بڑا مشن شروع کیا گیا جو دو دن تک جاری رہا۔ آخرکار سرکاری طور پر اعلان کردیا گیا کہ وزیراعظم ہیرلڈ ہولٹ سمندر میں لاپتا ہو گئے ہیں۔ اس کی موت اب تک ایک انٹرنیشنل معمہ ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس نے خودکشی کی جبکہ اس کے بیٹے اور قریبی ساتھی اس کی سختی سے تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تمام عمر مایوسی کو شکست دیتا رہا، وہ کیسے اس سے ہار سکتا تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ چینی ایجنٹ تھا اور سمندر کی تہہ میں پہلے سے موجود چینی آبدوز میں چلا گیا جو اسے چین کے کسی دورافتادہ جزیرے پر لے گئی۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ آسٹریلیا کے اس ہیرو کو خلائی مخلوق سمندر سے نکال کر لے گئی ہے۔ ہیرلڈ بچپن سے ہی بدقسمتی کا شکار رہا۔ وہ بدقسمت تھا، کسی سازش کا شکار ہوا یا اسے سمندروں سے پیار تھا اور وہ وہیں جا بسا۔ یہ علیحدہ کہانیاں ہیں مگر اس کی 22ماہ کی مختصر وزارت عظمیٰ کا جائزہ لیں تو آسٹریلیا پر ویتنام جنگ کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔ آسٹریلوی عوام ویتنام کی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے۔ وہ اسے امریکہ کی جنگ سمجھتے تھے۔ ہیرلڈ نے بھی ابتدا میں اپنے فوجی آسٹریلیا نہ بھیجنے کا اعلان کیا تھا مگر اس وقت کے امریکی صدر جانسن سے اس کے تعلقات بظاہر بڑھتے گئے۔ ہیرلڈ نے آسٹریلوی عوامی امنگوں کے خلاف ویتنام میں اپنے فوجی بھیج دیئے۔ اس نے ویتنام کی جنگ میں دل کھول کر امریکہ کی امداد شروع کر دی۔ آسٹریلوی عوام کو اُس وقت بہت صدمہ ہوا جب جبری بھرتی کیا گیا ایک نوجوان آسٹریلوی فوجی ویتنام میں مارا گیا۔ اس سے بھی بڑھ کر تمام آسٹریلوی اس وقت حیران رہ گئے جب وزیراعظم ہیرلڈ ہولٹ نے اپنے دورے کے دوران وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر جانسن کو مخاطب کر کے کہا ’’ہم ویتنام میں اس لیے موجود نہیں ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ ہم وہاں اس لیے ہیں کہ آسٹریلیا کا وہاں ہونا درست ہے اور وہاں اس وقت تک رہیں گے جب تک جنوبی ویتنامی حکومت مضبوط نہیں ہو جاتی۔ جناب صدر! جب کبھی آپ کے ذہن میں مایوسی یا اداسی کا کوئی خیال آئے تو ضرور جان لیں کہ آپ کا ایک ایسا دوست موجود ہے جو آپ کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہے۔ ویتنام میں لڑی جانے والی جنگ صرف امریکہ کے مفاد کی نہیں بلکہ آسٹریلوی مفاد میں بھی ہے‘‘۔ وزیراعظم ہیرلڈ ہولٹ کی تقریر پر آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس اور دیگر یورپی ممالک میں بہت تنقید ہوئی مگر ہیرلڈ نے امریکی دوستی کا دامن نہ چھوڑا اور ویتنام میں مزید آسٹریلوی فوجی بھجوانے کا اعلان کیا۔ آسٹریلیا کے لوگ امریکی اشاروں پر بننے والی پالیسیوں کے سخت خلاف تھے۔ صدر جانسن پہلے امریکی صدر تھے جنہوں نے آسٹریلیا کا سرکاری دورہ کیا مگر پھر بھی آسٹریلوی عوام نے ان کے سامنے بھرپور احتجاج کیا۔ امریکی صدر کی گاڑی کے آگے لوگ لیٹ گئے۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے ’’جانسن بتاؤ کہ آج تم نے کتنے آسٹریلوی بچوں کو یتیم کیا ہے؟‘‘ آسٹریلوی حکمرانوں نے اپنی عوام اور دوسرے ممالک کی مخالفت کے باوجود جس طرح ویتنام کی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا اس کا تقاضا تھا کہ امریکہ آسٹریلیا سے بہت خوش ہوتا مگر امریکی حکومت ویتنام کی جنگ میں آسٹریلیا کے تعاون سے مطمئن نہیں تھی۔ پاکستان کی تاریخ بھی امریکی دوستی کا دم بھرنے والوں سے بھری ہوئی ہے۔ جہاد افغانستان ہویا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہم نے انہیں پاکستانی مفاد کی جنگیں کہا۔ یہاں تک کہ 1960ء کی دہائی میں جب برما اور ویتنام کے ہمسایہ ملک لاؤس میں بغاوت ہوئی جو امریکی مفاد کے خلاف تھی تو صدر ایوب نے بغاوت کو کچلنے کے لیے پاکستانی فوجیں بھیجنے کی پیشکش کی تھی۔ پاکستانی حکمرانوں کے امریکہ پر صدقے واری جانے کے باوجود بھی امریکہ مطمئن نہیں ہوتا۔ وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ روس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد ہوئی یا نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس دورے سے متوازن خارجہ پالیسی کی خواہش کا اظہار ضرور ہوا۔ پاکستانی عوام صرف امریکہ کی دوستی کے بجائے دنیا میں متوازن دوستی کی خواہش رکھتے ہیں مگر اب تک جس پاکستانی سربراہ نے بھی امریکہ کے ساتھ روس سے بھی ہاتھ ملانے کی کوشش کی کچھ عرصے بعد وہ سربراہ حکمران نہیں رہا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اب بھی تاریخ دہرائی جائے گی یا نئی تاریخ رقم ہو گی؟۔