اسلام آباد: سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس میں نظر ثانی درخواست کی لائیو کوریج سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ۔ سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کو دلائل دینے کی اجازت دے دی۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی لارجر بنچ کے سامنے دلائل دیتے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 29 مئی کو ریفرنس کی خبر میڈیا پر آئی، ہمیں بدنام کیا گیا۔23مئی 2019کو میرے خلاف ریفرنس چیف جسٹس کو بھجوایا گیا۔ پوری دنیا میں میرے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا۔
قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کیریئر تو 65 سال کی عمر میں ختم ہوجائے گا شہرت قبر تک ساتھ چلے گی۔ میں نہیں چاہتا کہ اچھی شہرت پر حرف آئے۔ میرے کزنز نے مجھے کہا آپ کے ساتھی آپ کے خلاف کیوں فیصلہ کریں گے۔اپنے کزنز کی بات سننے کے بعد ان سے ترک تعلق کردیا ۔میری کزنز نے کہا ریفرنس آپ کے دوستوں نے خارج کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فارن کرنسی اکاؤنٹ کو اس وقت قانونی تحفظ حاصل تھا۔اہلیہ نے نجی بینک میں فارن کرنسی اکاؤنٹ کھلوایا جس سے رقم منتقل ہوئی ۔ قانون کی خلاف ورزی ہو رہی تھی تو ایف بی آر نے کبھی نوٹس کیوں نہیں لیا؟ اپنے ریٹرنز میں کبھی اہلیہ کی جائیدادیں ظاہر نہیں کیں ۔شادی سے پہلے بھی میری اہلیہ ٹیچر تھیں ،بہترین تنخواہ لیتی تھیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ جج بننے کے بعد کوئی جائیداد نہیں خریدی ۔جائیدادیں خریدتے وقت میرے بچے بالغ تھے ۔لندن کی جائیدادیں میرے جج بننے سے بھی پہلے کی ہیں۔ بہتر ہو گا تمام سوالات آخر میں پوچھے جائیں ۔جہاں آپ کو محسوس ہو کہ میں حد پار کر رہا ہوں مجھے روکا جائے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ لوگ آپ کے خلاف ہیں تو آپ کے حامی بھی ہیں ،ججز کی ایک ذمہ داری صبر ور تحمل کرنا بھی ہے۔ ہمیں بہت سی چیزوں پر رائے دینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ میرا تعلق ایک آئینی ادارے سے ہے۔ آپ کی درخواست میں فل کورٹ پر کوئی اعتراض نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ اعتراضات اور سوالات پر توقع ہے آپ تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔بعض اوقات ذاتی معاملات میں اچھا رویہ رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ وکیل ، سائل اور عدالت میں رابطہ کار ہوتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آج ملک میں میڈیا کی حالت دیکھ لیں۔ صحافیوں کے اغوا پر وزیراعظم کہتے ہیں مجھے کیا معلوم کیا ہوا ۔ صحافیوں پر تشدد ہوا کسی نے انکوائری تک نہیں کی ۔ ذمے داروں کا نام بتاؤں تو میرے خلاف ریفرنس آجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر فاضل ججز کو کوئی بات گراں گزری ہوتو معذرت چاہتا ہوں ۔ کل کو کسی بھی جج کو پروپیگنڈے میں گھسیٹا جاسکتا ہے،۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دوران سماعت جذباتی ہوگئے ۔ 10 رکن بنچ سے پوچھا اگر میری جگہ آپ کی اہلیہ اور بچے ہوتے تو آپ لوگ کیا کرتے؟
انہوں نے کہاکہ میں یہ جنگ اپنے ادارے کے لیے لڑ رہا ہوں ۔ مسئلہ 10 لاکھ تنخواہ کا نہیں، ملک کے مستقبل کا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج اوراہلخانہ کے خلاف سرکاری چینل سے پروپیگنڈا کیا گیا۔ اگر کوئی فالتو بات کروں تو میری سرزنش کی جائے۔ موجودہ کیس اپنی نوعیت کا منفرد کیس ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے مزید کہا لگتا ہے آج ہم پاکستان میں نہیں گٹر میں رہ رہے ہیں۔ میری ذات کو بھول جائیں، ملک کے لیے جذباتی ہورہا ہوں ۔ ایک فوجی ڈکٹیٹر کی اقتدار کی ہوس نے ملک تباہ کردیا۔قائد اعظم اور میرے والد کی روح قبر میں تڑپ رہی ہوگی ۔ سانحہ مشرقی پاکستان پر بات کی جائے تو خاموش کرادیا جاتا ہے ۔