لاہور: گول مٹول چہرہ، بھاری بھرکم جسم اور معصومانہ باتیں، یہ خدوخال ہیں لالی وڈ کے ایک ایسے فنکار کے جس کی زندگی کاڈراپ سین سب کو سوگوار کرنے والا تھا ۔ وہ اداکار تھا ننھا ، نام تو رفیع خاور تھا لیکن فلموں اور ڈراموں میں وہ ننھا کے نام سے مشہور ہوئے۔ نام کے ساتھ ننھا تھا لیکن وہ واقعی بڑا فنکار تھا۔
ننھا جب بھی سکرین پر جلوہ گر ہوتے تو بے ساختہ ہنسی سے لوگوں کے چہرے کھل اٹھتے۔ننھا جب الف نون میں کمال احمد رضوی کے ساتھ جلوہ گر ہوئے تو ٹی وی سکرین کے سنہرے دور کے اس ڈرامے کو دیکھنے والے بہت محظوظ ہوئے ۔الف نون پاکستان ٹیلی وژن کے سنہرے دور کے یادگار ڈراموں کا سلسلہ تھا۔ جس کے مرکزی کردار کمال احمد رضوی اورننھا تھے۔ ڈرامے کے نام کے سلسلے میں یہ بات دلچسپ ہے کہ یہ الف نون ڈرامے کے پروڈیوسر آغا ناصر کے نام کا اختصار تھا۔ جو الن ننھا کے بارے میں سمجھا گیا ۔
ننھا نے 1964ء میں ریڈیو پاکستان کے ایک پروگرام کے ذریعے فنکارانہ صلاحیتوں کو اس بھرپور انداز میں پیش کیا فلمسازوں کی نظریں ان کی طرف ہوگئیں۔ 1965ء سے ان کے فلمی کیریئر کا آغاز ہوا۔ان کے کریڈٹ پر یوں تو بے شمار فلمیں ہیں، تاہم ’’پردے میں رہنے دو‘‘، ’’آس‘‘، ’’نوکر‘‘، ’’دبئی چلو‘‘، ’’سالا صاحب‘‘ اور ’’آخری جنگ، ’بھروسہ‘، ’شبانہ‘، ’جدائی‘، ’باؤ جی‘، ’نکاح‘، ’صاحب جی‘، ’ہسدے جائو تے ہسدے آؤ‘ ، ’ٹہکا پہلوان‘ اور ’جن چاچا‘ ایسی فلمیں ہیں جو ننھا نے ٹائٹل رولز کے طور پر کی تھیں۔
علی اعجاز اور ننھا کی جوڑی پر مشتمل ’دبئی چلو‘ ایسی فلم ثابت ہوئی جس کو آج بھی شاہکار مانا جاتا ہے۔"دبئی چلو" پلاٹینم جوبلی فلم تھی۔ اس سے ننھا ،علی اعجاز کا راج شروع ہوا۔ دبئی چلو کے بعد ’سوہرا تے جوائی‘ بھی کامیاب ہوئی جس میں ننھا نے سسر اور علی اعجاز نے داماد کا کردار نبھایا تھا۔ ان دونوں کی ’سالا صاحب‘ بھی بلاک بسٹر ثابت ہوئی۔
ننھا کی زندگی میں نازلی کانام نہ لیاجائے یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔اس تعلق کا انجام کیا ہوگا یہ تو کسی کومعلوم بھی نہیں تھا اور اس کا تذکرہ نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ تاہم یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ننھا کی موت آج تک پراسرار سمجھی جاتی ہے۔اداس چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنےو الے فنکار ننھا کی مداحوں سے بچھڑے 37 برس بیت چکے ہیں، ان کا انتقال 2 جون 1986 کو ہوا لیکن وہ مداحوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔