مخصوص نشستوں سے متعلق کیس: الیکشن کمیشن نے غیر آئینی اقدامات کیے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے؟ جسٹس اطہر من اللہ

 مخصوص نشستوں سے متعلق کیس: الیکشن کمیشن نے غیر آئینی اقدامات کیے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے؟ جسٹس اطہر من اللہ

 اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر سماعت 9 جولائی تک ملتوی کر دی گئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ سماعت کی۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان  نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستیں لے سکتیں جب  کم ازکم ایک امیدوار جیتا ہو۔ آئین کے مطابق مخصوص نشستیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی آزاد امیدواروں کونہیں۔مخصوص نشستوں سے متعلق آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایا جائے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بنیادی سوال کا جواب ہی نہیں دیا، الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کر دیا، الیکشن کمیشن نے غیر آئینی اقدامات کیے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے؟ ایک جماعت کے ووٹرز کو انتخابی عمل سے ہی باہر کر دیا گیا، آئین کی بنیاد ہی جمہوریت پر کھڑی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ نے خود کہا اگر  آزاد امیدوار  زیادہ ہوں تو کچھ غیرمعمولی صورتحال ہوگی، موجودہ صورتحال میں آزاد امیدواروں کی تعداد بہت زیادہ ہے، سوال یہ ہے کہ آزاد امیدوار اتنی زیادہ تعداد میں آئے کیسے؟ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے اتنے زیادہ آزاد امیدوار  بنائے؟  موجودہ تنازع الیکشن کمیشن کی غلطیوں کی وجہ سے آیا، سپریم کورٹ کی ڈیوٹی نہیں کہ غلطی کو ٹھیک کرے، کیا وہ قانونی آپشن نہیں اپنانا چاہیے جو اس غلطی کا ازالہ کرے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے پوچھا  آپ کےمطابق سنی اتحاد کونسل ضمنی الیکشن جیتنے پر پارلیمانی پارٹی بن چکی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا اگر سنی اتحاد ضمنی انتخابات میں جیتتی ہے تو  پارلیمانی پارٹی بن سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت انصاف کے تقاضوں کا نہیں آئین اور قانون کا اطلاق کرتی ہے؟ نظریہ ضرورت کے تمام فیصلوں میں انصاف کے تقاضوں کا ہی ذکر ہے، جب کچھ ٹھوس مواد نہ ملے تو انصاف کی اپنی مرضی کی تشریح کی جاتی ہے۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت 9 جولائی تک ملتوی کردی۔

مصنف کے بارے میں