ماحولیاتی تبدیلی اور امریکی سیاست

ماحولیاتی تبدیلی اور امریکی سیاست

لڑکھڑاتی زبان، کانپتے ہاتھ، ادھ کھلی آنکھیں، بکھرے خیالات و الفاظ، طویل خاموش اور بے ربط گفتگو۔ یہ تھے  دنیا کے طاقت ور ترین ملک امریکا کے صدر جو بائیڈن اور دوسری طرف ہشاش بشاس ڈونلڈ ٹرمپ۔ پر اعتماد انداز۔  


یہ ریاست اٹلانٹا میں امریکی ٹی وی سی این این کے ہیڈ کوارٹرز کے اسٹوڈیوز کا منظر تھا جہاں صدارتی مباحثہ ہوا۔ معیشت، اسقاط حمل، امیگریشن، خارجہ پالیسی،  غزہ جنگ بندی،  کیپیٹل ہل حملہ،  جمہوریت اور مہنگائی اہم ترین موضوع تھے جن پر دونوں کے درمیان خوب گرما گرم بحث ہوئی، لیکن ایک موضوع ایسا تھا جس کا دنیا بھر کے کلائمٹ ایکٹوسٹس اور کلائمٹ سائسندانوں کو انتظار تھا۔ یعنی کلائمٹ چینج۔:


ماحولیاتی تبدیلی کے لئے کام کرنے والے کارکن اور خود کلائمٹ سائنسدان سابق صدر ٹرمپ کے عجیب و غریب دعووں پر حیران تھے۔ سابق صدر جوش خطابت میں اپنے دور حکومت کو ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے سنہرا دور تو کہہ گئے، لیکن صدر جو بائیڈن نے لوز بال ملتے ہی گیند باونڈری لائن سے باہر پھیک دی۔ ٹرمپ کے اس دعوے کو یکسر مسترد کر دیا کہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے انہوں نے کوئی انقلابی اقدامات کیے۔ سابق صدر ٹرمپ نے پھر یہاں اسمارٹ چال  چلی، سی این این کے موڈریٹر ڈانا باش کے اس سوال کا جواب گول کر گئے کہ وہ دوسری مدت کے لئے  صدر منتخب ہو گئے تو کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کریں گے؟ ڈانا باش نے پھر ٹو لگائی تو ٹرمپ نے یہ دعویٰ کر دیا کہ وہ "صاف پانی" اور "صاف ہوا" چاہتے ہیں اور اپنے دور میں اُن کے پاس بہترین "ڈیٹا" تھا۔ بائیڈن نے پھر کریز سے باہر نکل کر کھیلنے کی کوشش کی اور بے زاری سے ٹرمپ کے دعوے سچ ماننے سے ہی انکار کر دیا۔ 


لمحہ موجود میں دنیا کے دیگر براعظموں اور خطوں کی طرح امریکا بھی ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے محفوظ نہیں ہے۔ تقریباً 90 فیصد امریکی شہریوں کو گذشتہ پانچ سال میں موسم کی انتہائی شدت کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی لئے سخت موسمی حالات اور کلائمٹ چینج جیسا اہم مسئلہ صدارتی مباحثے میں شامل نہ ہونا انتخابات کےنتائج پر اثر انداز ہو سکتا تھا۔ امریکی شہری جاننا تھے کہ اُن کا اگلا صدر موسمیاتی بحران کی شدت کم کرنے اور ان اثرات سے بچانے کے لیے کیا ناگزیر اقدامات کرے گا؟


سائنسدان پہلے ہی خطرے کی گھنٹی بجاچکے ہیں کہ کلائمٹ چینج سے مشرق سے مغرب تک امریکی شہریوں کو متاثر  کرے گی۔ 2023  کا سروے واضح کرتا ہے کہ 10 میں سے تقریباً 9 امریکیوں یعنی 87 فیصد نے گزشتہ پانچ سال میں کم از کم ایک انتہائی شدید موسم کا سامنا کیا۔ شکاگو یونیورسٹی کے نیشنل اوپینین ریسرچ سینٹر کے مطابق  ان شدید موسمی حالات میں گرمی کی خطرناک لہر، موسم سرما کے تباہ کن طوفان، خشک سالی و قحط ، سمندری طوفان، جنگلات کی آگ اور بگولے یا بڑے سیلاب شامل ہیں۔  گرم دنوں اور  علاقوں کی وسعت کے باعث 27 ریاستوں میں 100 ملین شہری شدید درجہ حرارت کا شکار ہیں۔ ان علاقوں کے لوگ پینے کے صاف پانی تک رسائی اور بجلی کی دستیابی تک کے لیے فکرمند ہیں۔  

پانچ جون کو امریکا کے جنوب مغربی علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں رہے۔ ریاست نیواڈا کے شہر لاس ویگاس اور ریاست ایریزونا کے شہر فینکس میں درجہ حرارت 43.3 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو گیاتھا۔ 

2022 میں ایک سروے میں دو تہائی امریکی شہری سمجھتے تھے کہ اُن کی وفاقی حکومت ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئےخاطر خواہ کام نہیں کر رہی۔ 

2023 میں نیویارک میں ماحولیاتی تبدیلی پر بین الاقوامی اجلاس کے موقع پر ہزاروں مظاہرین نے مارچ کیا اور فوسل فیول پر انحصار کم کرنے پر زور دیا۔ اُن کا مطالبہ تھا کہ انسانی زندگی کا دارومدار توانائی پیدا کرنے میں فوسل فیول کے استعمال کو ختم کرنے پر ہے، صدر بائیڈن تیل اور گیس کے نئے منصوبوں کی منظوری دینا بند، موجودہ منصوبے ختم اور کلائمٹ ایمرجنسی کا اعلان کریں۔

گزشتہ صرف ایک سال کے دوران امریکا میں سخت موسم اور اس سے متعلقہ قدرتی آفات سے 145 ارب ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے۔ وائس آف امریکا کی ایک رپورٹ کے مطابق جولائی 2023 میں امریکا کی تیرہ ریاستوں کے تقریباً 86 مقامات آگ کی لپیٹ میں آگئے جس سے 30 لاکھ ایکڑ زمین جل گئی۔ اُس وقت امریکی صدر جو بائیڈن نے کلائمٹ چینج کو حقیقی خطرہ تسلیم کر لیا تھا۔ 2022 اور 2023 کے صرف ایک سال کے دوران امریکا میں سخت موسم اور اس سے متعلقہ قدرتی آفات سے 145 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ 

نیویارک ٹائمز کے 2021 میں شائع ہونے والے تجزیے کے مطابق سابق صدر ٹرمپ نے اوباما انتظامیہ کی جانب سے قائم کردہ 100 سے زیادہ ماحولیاتی ایس او پیز اور اقدامات کو واپس لے لیا تھا یا منسوخ کر دیا تھا۔ عہدے پر رہتے ہوئے انہوں نے بار بار موسمیاتی تبدیلیوں کو ایک "فریب" کہا۔ لیکن دوسری جانب نومبر 2020 میں سابق صدر  ٹرمپ نے امریکا کو باضابطہ طور پر اقوام متحدہ کے پیرس ایگریمنٹ سے الگ کر لیا۔ ایک سال بعد جب صدر بائیڈن نے عہدہ سنبھالا تو پہلے ہی دن باضابطہ طور پر امریکا کو دوبارہ پیرس معاہدے میں دوبارہ داخل کیا۔

” پیرس ایگریمنٹ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے اور عالمی درجہ حرارت 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ نہ بڑھنے کو یقینی بنانے کی بین الاقوامی سطح پر متفقہ کوشش تھی “

ادھر ماضی کے مشاہدے کے پیش نظر ماہرین کافی اپ سیٹ ہیں کہ اگر ٹرمپ دوسری مدت کے لیے منتخب ہوئے تو ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کیا فیصلے کریں گے؟ خبریں زیر گردش ہیں کہ فوسل فیول کمپنیز کے ساتھ اُن کے قریبی تعلقات کلائمٹ چینج کے عزم پر کافی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

فرسٹ اسٹریٹ فاؤنڈیشن کے ساتھ موسمیاتی اثرات کی تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر جیریمی پورٹر سمجھتے ہیں کہ دونوں امیدواروں کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیئے کہ کلائمٹ چینج صرف ایک سائنسی موضوع نہیں بلکہ ہر امریکی شہری کو روزانہ کی بنیاد پر متاثر کرنے والا ہے۔ 
کسی غریب یا ترقی پذیر ملک کے برعکس مغرب اور امریکا میں موسمیاتی تباہی کا معاملہ سیاسی فیصلوں پر بہت حد تک اثر انداز ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ سیاسی جماعتوں، ان کے منشور اور انتخابی نتائج پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اب لاہور سے لندن اور کینیڈا سے امریکا میں میرے کالج کارلٹن تک، ماحولیاتی تبدیلی کے باعث عوام گرمی کی شدید لپیٹ میں ہیں۔ میں، آپ اور کلائمٹ ایکٹوسٹس مل کر چھوٹے چھوٹے اقدامات تو کر سکتے ہیں، لیکن بڑی تبدیلی اور قانون سازی تو حکومتوں کو ہی کرنا ہو گی۔ اس لئے نومبر کے انتخابات میں 

صدر بائیڈن منتخب ہوں یا ڈونلڈ ٹرمپ، انہیں سیاسی بحث اور پارٹی کے اندر پائے جانے والے جذبات سے بلند ہو کر کلائمٹ چینج پر ایسی پالیسیاں اپنانا ہوں گی جو دیگر ممالک کے مشعل راہ ہوں۔  

تحریر: زینب وحید

نوٹ: ادارے کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


تعارف مصنفہ:

زینب وحید امریکا کے”کارلٹن“ کالج کی اسکالرشپ ہولڈر طالبہ ہیں۔ یونیسف یوتھ فورسائیٹ فلوشپ 2024 میں پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ کلائمٹ ایکٹوسٹ اور جرنلسٹ ہیں۔ مصنفہ، سوشل میڈیا کونٹینٹ کریئٹر اور مقررہ ہیں۔ یونیورسٹی آف ٹورنٹو، یورپ کے معتبر میگزین”جرنل آف سٹی کلائمٹ پالیسی اینڈ اکانومی”، اور نوبل پرائز ونر ملالہ یوسف زئی کے عالمی شہرت یافتہ میگزین “اسمبلی” میں مضامین چھپ چکے ہیں۔ پاکستان کے دو قومی اخبارات میں بلاگز لکھتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے تحت امریکا اور اٹلی میں یوتھ فار کلائمٹ چینج انٹرنیشنل کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ ارجنٹائن میں میں انٹرنینشل سی فورٹی سمٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل سول سوسائٹی کے تحت کانفرنس میں بطور پینلسٹ شامل ہیں۔ مضمون نویسی کے متعدد بین الاقوامی مقابلے بھی جیت چکی ہیں۔ نیدرلینڈز کے سرکاری ٹی وی نے زینب وحید کو پاکستان کی گریٹا تھنبرگ قراردیا ہے۔