اگرچہ ہماری قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے نام پر کچھ ارکان تو موجود ہیںلیکن ان کا جس قسم کا رویہ ہے اسے دیکھتے ہوئے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا وجود حکومت کے لیے کتنی بڑی نعمت سے کم نہیں۔ سالہا سال سے ہم دیکھتے آ رہے ہیں کہ اپوزیشن چھوٹی ہو یا بڑی لیکن بجٹ کی منظوری کے موقع پر ایسی جوتیوں میں دال بٹتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ قومی اسمبلی میں موجود ہمارے ووٹوں سے منتخب ہونے والے معزز ارکان (خواہ وہ اپوزیشن سے تعلق رکھتے ہوں یا حکومت سے) بجٹ کے حق اور مخالفت میں ایسے ایسے تماشے لگاتے تھے کہ گلی محلہ میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا کرنے والے بچے بھی ان کا مذاق اڑائیں۔
ماضی میں جو بھی ہوتا رہا اس کا ذکر اگر فی الحال رہنے ہی دیا جائے تو بہتر ہو گا۔ اس سال اگرچہ اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے کوئی ہلاگلا اور شور شرابا نہیں ہوا ۔ اور اسی طرح حکومتی بنچوں کو بھی ردعمل میں فنکاریاں دکھانے کا موقع نہیں ملا۔شائد یہی وجہ ہے کہ اس بجٹ میں تو پہلے سے مہنگائی میں پسے ہوئے عوام کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینے کی تیاری دکھائی دیتی ہے۔
اقتصادیات کے ننجا ماسٹر ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب اور حکومت میں شامل جماعتوں کے میڈیا سیل نے بجٹ سے پہلے یہ تاثر قائم کیا کہ اس سال تمام تر مالی مشکلات کے باوجود ایک عوام دوست بجٹ پیش کیا جائے گا جس میں عوام کو بہت زیادہ تو نہیں لیکن مناسب حد تک ریلیف ضرور مہیا کیا جائے گا۔ یہ امید تو خیر ڈار صاحب کی بجٹ تقریر کے ساتھ ہی ٹوٹ گئی لیکن بجٹ منظور ہونے سے پہلے ہی عوام کو جوس کی مشین میںڈالنے کے لیے آئی ایم ایف کی مشاورت سے ایک نئے فنانس بل کے ذریعے پہلے سے پلان شدہ 200 ارب روپے کی ٹیکسوں میں 215 ارب روپے کے اضافی ٹیکس بھی شامل کر دیے گئے ہیں یعنی رواں مالی سال کے
دوران(اگر ان میں مزید اضافہ نہ ہو تو) 415 ارب روپے کی اضافی ٹیکس وصول کیے جائیں گے۔
عوام کو خبر ہو کہ آئی ایم ایف کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے نتائج تو خیر چند دن بعد سامنے آنا شروع ہو ں گے لیکن ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کے نتائج تو انہیں فوری طور پر بھگتنے پڑیں گے۔
حکومت کی چکر بازیاں ملاحظہ ہوںکہ پہلے پیٹرول و ڈیزل سستا کرنے کا چکر دیے رکھا اور آخر میں ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کر دیا۔ بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کی بات ہوئی لیکن الٹا ٹیکسوں اور مہنگائی کا ایک پہاڑ ان کے سروں پر لاد دیا گیا۔ اب ٍحکومت کی ہی ایما پر پھیلائی جانے والی خبروں کے مطابق عید کی چھٹیوں کے بعد جب مارکٹیں کھلیں گی تو ڈالر اور سونے کے ریٹس میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئے گی۔ اس بات میں کتنی حقیقت ہے یہ بھی دو ایک روز میں واضع ہو جائے گا لیکن فی الحال مجھے حسب حال ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ جنگ کے دنوں میں جبری بھرتی کے دوران ایک انتہائی ڈرپوک نوجوان کو بھی فوج میں بھرتی کر لیا گیا۔ مرتا کیا نہ کرتا وہ باقی ٹریننگ تو کسی طور حاصل کرتا رہا لیکن جب جہاز سے چھلانگ لگا کر پیرا شوٹ کے ذریعے زمین پر اترنے کی تربیت اور پریکٹس کی بات آئی تو اس نوجوان کے طوطے اڑ کر درختوں پر جا بیٹھے۔
جہاز میں سوار کروانے کے بعد اس نوجوان اور اس کے ساتھیوں کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ جہاز سے چھلانگ لگانے کے بعد تقریباً تین منٹ میں آپ کا پیرا شوٹ کھل جائے گا۔ اور اس طرح آپ بحفاظت زمین پر اترنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ جہاں آپ زمین پر اتریں گے وہاں فوجی گاڑیاں آپ کا انتظار کر رہی ہوں گی جن میں سوار ہو کر آپ اپنے کیمپ میں واپس آ جائیں گے۔
خوف کی وجہ سے نوجوان جہاز سے چھلانگ لگانے میں کافی ہچکچاہٹ کا شکار تھا لیکن کافی یقین دہانیوں کے بعد اسے جہاز سے دھکا دے دیا گیا۔ بتائے گئے وقت تک جب پیرا شوٹ نہ کھلا تو انتہائی خوف کے عالم میں کانپتے ہاتھوں سے نوجوان نے پیرا شوٹ کھولنے تمام تر کوششیں کر ڈالیں لیکن بے سود ۔ تنگ آ کر اس نے وائرلیس پر کنٹرول روم سے رابطہ کیا انہیں صورتحال سے آگاہ کیا لیکن وہ بھی کچھ خاص مدد نہ کر سکے ، اس پر نوجوان خاصہ جلال میں آ گیا اور برے انتظامات پر انتظامیہ کو کھری کھری سناتے ہوئے کہنے لگا کہ ، جس طرح کا آپ کا پیرا شوٹ کا انتظام ہے مجھے یقین ہے زمیں پر آپ نے گاڑیاں بھی نہیں بھجوائی ہوں گی۔
اگر تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان تحریک انصاف سمیت تقریباً سبھی سیاسی پارٹیوں کے نمائندے قومی اسمبلی اور سینٹ میں موجود ہیں ۔ ان کو یہ تو بخوبی پتا ہے کہ اپنی مراعات میں اضافہ کس طرح کرنا ہے اور پہلے سے ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ کس طرح ڈالنا ہے لیکن اس بات سے ہر کوئی لاعلمی اور لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے کہ سالہا سال سے لیے جانے والے اربوں ڈالر کے قرضے کہاں خرچ ہوئے ؟ منافع میں چلتے ہوئے ادارے کس طرح دیوالیہ ہو گئے؟ اور بہترین انداز میں بنے ہوئے نہری نظام، ریلوے کے نظام ،پی آئی اے کے نظام، عدالتی اور بیوروکریٹک نظام میں بہتری تو خاک لانی تھی دستیاب نظام کو بھی تباہی کے دھانے پر کیسے لا کھڑا کیا گیا؟
جانے کیوں ہمارے حکمرانوں ( خواہ وہ کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں)کو اتنی معمولی سے بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ اب ان عوام کو مزید نچوڑنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اگر اب بھی انہوں نے اپنے اللے تللے کنٹرول نہ کیے اور عوام کو کسی نا کسی حد تک ریلیف مہیا نہ کیا تو پھر حالات ایسا رخ اختیار کریں گے کہ شائد ان کو بھی دوہری شہرت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسرے ملکوں میں جا کر سیٹل ہونے کا موقع نہ مل سکے۔