اسلام آباد : معاشی ماہرین نے آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر اپنی آرا کا اظہار کیا ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ مسئلے کا عارضی حل ہے جبکہ کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ اس سے پاکستان کو اپنے معاشی حالات بہتر کرنے کا موقع ملے گا ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ معاہدے کے بعد کاروبار معمول کے مطابق بحال ہوگا، ڈالر کی قیمت پر ضرب کاری لگے گی،مہنگائی میں اضافے کا رحجان تھم جائے گا،بے یقینی کی فضا ختم ہوگی اور کاروباری طبقے کا اعتماد بڑھے گا۔ ڈیل نیم مردہ معیشت کیلئے آکسیجن کے مترادف ہے۔
آئی ایم ایف ڈیل سے غیرملکی سرمایہ کاروں کا اعتمادبحال، اسٹاک ایکسچینج بہتر، روپیہ تگڑا ہوگا، حکومت تاجروں کا اعتماد بحال اور برآمدات میں اضافہ کرے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق ڈپٹی گورنر مرتضی سید کا کہنا ہے کہ اس معاہدے نے پاکستان کو آئندہ انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نمٹنے کیلئے کور فراہم کرد یا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ (ایس بی اے) کے دوارن اضافی فنڈنگ کے لیے کوششیں تیز کر دینی چاہئیں۔ان کا کہنا ہے کہ اسی صورت میں پاکستان آئندہ مہینوں میں اپنے واجبات کی ادائیگیاں کر پائے گا۔
مرتضی سید کے بقول حالیہ معاہدہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے تعلقات کا خاتمہ ثابت نہیں ہوگا بلکہ انتخابات کے بعد اگلی حکومت کو ادائیگیوں کے توازن اور غیر ملکی قرض ادا کرنے کے لیے ایک اور طویل مدتی آئی ایم ایف پروگرام کے لیے مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
ثاقب شیرانی کا اسٹینڈ بائی معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسٹینڈ بائی معاہدہ موجودہ اور انتخابات کے بعد نئی حکومت کو ایک عارضی لائف لائن فراہم کرے گا۔ لیکن نئی آنے والی حکومت کو از سر نو اور طویل المیعاد معاہدے کیلئے آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
عبدالعلیم کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے غیریقینی معاشی ماحول میں اسے ایک اہم اور مدگار پیش رفت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ اسٹیٹ بینک نے مہارت کے ساتھ موجودہ صورتحال کا سامنا کیا ہے لیکن سخت اقدامات کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد اور غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔
معاشی ماہر ماہا رحمان کا کہنا ہے کہ امید ہے کہ ہم اس معاہدے سے ملنے والی مہلت میں ایسے فیصلے کریں گے جن کی مدد سے ہمیں ان مشکلات کا سامنا نہ ہو جن کا پورے گزشتہ برس ہم نے سامنا کیا اور آئندہ ایسے حالات کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات کریں گے۔ اب حکومت کو مالیاتی امور کے لیے محتاط فیصلہ سازی کرنا ہو گی۔
ساجد امین جاوید کا کہنا ہے کہ اسٹینڈ بائی معاہدے میں بجلی کے نرخ میں بڑے اضافے، مارکیٹ ویلیو کے مطابق ایکسچینج ریٹ کے تعین سمیت مزید شرائط سامنے آئیں گی۔ لیکن پاکستان کے پاس اس بحران سے نکلنے کے لیے کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت ہے۔
اقتصادی ماہر گیرتھ لیدر کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی پاکستان کے ساتھ ہونے والے قرض کے معاہدے کے بعد معیشت دوبارہ محفوظ راستے پر آنی چاہیے اور اس کو درپیش خطرات محدود ہونے چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی کے تجربات کو پیشِ نظر رکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کو اخراجات محدود کرنے کے اپنے مشکل وعدے پورے کرنے میں دشواری کا سامنا ہوگا۔
معروف صنعتکار اور چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا نیاپنے ویڈیو بیان میں پاکستان کی آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہاکہ امید ہے اس سے ملک میں معاشی استحکام آئے گا۔انہوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ اب ایکسپورٹ بڑھانے پر توجہ دی جائے۔