اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں کام کرنے والے لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان نے عالمی ادارے ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی تازہ رپورٹ میں پاکستان کو قانون کی عمل داری کی بدترین رینکنگ میں شامل کیے جانے پر ایک خط میں اعتراضات اٹھائے ہیں۔
اس سلسلے میں کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ امریکا میں قائم ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کو بھیجی جانی والی ای میل میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ کے حوالے سے 2021 کی رپورٹ میں کئی خامیاں ہیں۔ اس رپورٹ سے منسلکہ انڈیکس میں پاکستان کو 139 میں سے 130 ویں نمبر پر رکھا گیا تھا۔
خط میں بتایا گیا ہے کہ رول آف لا انڈیکس کی تیاری میں نو عوامل میں سے صرف دو عوامل کا تعلق عدلیہ سے ہے جو کہ سول جسٹس اور کریمینل جبکہ باقی سات عوامل کا تعلق گورننس سسٹم، معاشرتی عوامل اور حکومتی کارکردگی سے ہے۔ سول جسٹس میں پاکستان کی دنیا میں 139 میں سے 124 ویں پوزیشن ہے جبکہ کریمینل جسٹس میں 108 ویں پوزیشن ہے ۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان دو عوامل میں بھی عدلیہ کے علاوہ دیگر ادارے جیسے پولیس، پراسیکیوشن، وکلا برادری، جیل خانہ جات اور عوام الناس بھی شامل ہیں مگر اس رپورٹ میں ان عوامل کا ذکر نہیں حالانکہ ان پر عدلیہ کا کوئی اختیار نہیں۔
اسی طرح رینکنگ کے حوالے سے طریقہ کار پر بھی سوالات اٹھتے ہیں کیونکہ اس میں پرانا ڈیٹا بھی استعمال کیا گیا ہے جو کہ گیلپ پاکستان نے 2019 میں ایک ہزار لوگوں سے انٹرویوز کرکے تیار کیا تھا۔
آئندہ دو سال بھی یہی ڈیٹا استعمال کیا گیا ہے جن لوگوں کے انٹرویوز کیے گئے ہیں وہ بھی علاقے کی بنیاد پر نہیں اور نہ ہی بتایا گیا ہے کہ کیا ان کا براہ راست قانون و انصاف سے متعلقہ اداروں سے پالا بھی پڑا ہے یا صرف مفروضوں پر مبنی ان کی رائے ہے۔خط کے مطابق چھوٹے سروے سے 23 کروڑ لوگوں کی رائے کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔
خط میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ نے ہمیشہ قانون کی عمل داری اور کیسز کو جلد حل کرنے کو یقینی بنایا ہے۔
خط کے مطابق سال 2021-2022 کے دوران پاکستان کی عدالتوں نے 56 لاکھ سے زائد کیسز نمٹائے ہیں جبکہ اسی عرصے میں 55 لاکھ سے بھی کم نئے کیسز عدالتوں میں آئے ہیں، اس طرح زیر التوا کیسز کی تعداد میں کمی کی گئی ہے۔
خط کے مطابق یہ سب واضح کرتا ہے کہ پاکستانی عدلیہ تمام مسائل کے باوجود کیسز کو جلد نمٹانے کے حوالے سے پرعزم ہے۔
ورلڈ جسٹس پروجیکٹ سے خط کے ذریعے کہا گیا ہے کہ اپنی آئندہ رپورٹوں میں ان اعتراضات کو مدنظر رکھا جائے تاکہ پاکستان کے نظام انصاف کے حوالے سے حقیقی تصویر سامنے آسکے۔