جب سے نئی حکومت آئی ہے میں ایک بات بڑی واضع طور پر کہہ رہا ہوں کہ پی ڈی ایم کا اتحاد ذیادہ دیر تک نہیں چل سکتا کیونکہ یہ غیر فطری ہے۔دیہائیوں کے مخالف زبردستی ساتھ بٹھا دیئے گئے ہیں، زبردستی کی تو شادی نہیں چلتی تو اتنی پارٹیوں کا سیاسی اتحاد پاکستان جیسے ملک میں کیسے چل سکتا ہے؟
بات سمجھنے کی یہ ہے کہ جس طرح کی یقین دہانیوں کے ساتھ زرداری صاحب نے ایم کیو ایم کو ساتھ ملایا تھا وہ آج سب کچھ کھل کے سامنے آ گیا ہے کہ یہ سیاسی اتحاد نہیں چل سکتاجو سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخاب کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں اور آئندہ ہونے والا الیکشن جو کہ بہت پر تشدد اور خونی ہوتا نظر آرہا ہے، سندھ میں الیکشن کمیشن کا فیلیر اور سندھ حکومت کا دھونس اور زبردستی کا رویہ بھی سامنے آیا ہے اور اسی لئے ایم کیو ایم کے وسیم اختر اور دوسرے لیڈران نے اندرون سندھ میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن کو معطل کرنے کی اپیل کر دی ہے اور اس کی وجہ الیکشن کمیشن کی بے ظابطگیاں اور سندھ حکومت کے انڈر پولنگ عملے کو اغواہ اور ایم پی اے کی جانب سے پولنگ عملے کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تو اس طرح کی صورت حال کو دیکھتے ہوئیہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں الیکشن کمیشن آزادانہ اور شفاف الیکشن کروا سکتا ہے اور یہ کہ الیکشن پر امن ماحول میں ہو سکتے ہیں اس کے بعد جب یہ کہا جاتا ہے کہ الیکشن فوج کی نگرانی کے بغیر یا فوج کو پولنگ اسٹیشن سے باہر رکھ کرکروایا جائے اور فوج سے سیکورٹی کے لئے مدد نہ لی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ آنے والے الیکشن مشکل سے مشکل تر ہو جائیں گے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ابھی تو یہ وہ جماعتیں ہیں جو حکومت میں اکھٹی ہیں اور سندھ کے بلدیاتی انتخاب میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں اور جب یہ حکومت سے الگ ہوکے الیکشن میں ایک دوسرے کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے تو صورت حال بہت خطرناک ہو جائے گی۔
میں بار بار کہ رہا ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ الیکشن موجودہ جمہوریت کے تسلسل کا آخری الیکشن ثابت نہ ہو۔ آنے والے الیکشن اگر پر تشدد ہ اور خونی ہوئے اور انتخابات کو تسلیم نہ کیا گیا یا الیکشن کے نتیجے میں ردو بدل کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ بات یقینی ہے کہ معاملہ بہت حد تک خطرناک ہو جائے گا۔ کوئی بھی فیصلے کو نہیں مانے گا اور کوئی بھی پارٹی اپنی شکست کو اس موجودہ صورت حال میں تسلیم نہیں کرے گا کیونکہ الیکشن کمیشن بظاہر جانبدار اور بے ظابطگیوں میں ملوث نظر آر ہا ہے کیونکہ ووٹر لسٹوں میں بے پناہ غلطیاں ،انتخابی نشان غلط آلاٹ کئے جا رہے ہیں ، کہیں انتخابی عملہ زیر اثر اور کہیں زیر اعتاب نظر آ رہا ہے حکومتی ایم پی ایز اور حکومتی عہدیداروں کے۔ اس ساری صورتحال کے اندر الیکشن کمیشن کو مکمل غیر جانبدار اور با اختیار ہونا چاہئے اور عدالت کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ الیکشن کمیشن کو مکمل بااختیار بنانے اور غیر جانبدار رہتے ہوئے پر امن اور شفاف الیکشن کروانے کے لیے پابند کیا جائے تاکہ الیکشن کا فیصلہ سبھی کے لیے قابل قبول ہو اس میں سب سے اہم بات ہی یہی ہے انتخابات میں شفافیت، غیر جانبداری اور آز ادانہ حق راہ دہی کا استعمال ایسے سیاسی ماحول میں بہت ہی ضروری اور ملک میں سیاسی استحکام کے لئے وقت کی اہم ضرورت ہے اور اگر اس کے بغیر انتخابات کروانے کی کوشش کی گئی تو پاکستان کی تاریخ کیخطرناک ترین اور خدانخواستہ خونی ترین الیکشن ہو سکتے ہیں اس جمہوریت کے آخری الیکشن ہو سکتے ہیں اور پھر قوم مجبور ہو جائے گی کے اے میرے عزیز ہم وطنوں والے جملوں کی طرف دیکھیں یا کسی اور طاقت کی طرف دیکھیں یا نظام کو لپیٹنے کی حمایت پر مجبور ہو جائے۔
نظام لپیٹنا معمالے کا حل نہی بلکہ صحیح جمہوری روایات کو برقرار رکھتے ہوئے شفاف انتخابات کروائیں جائیں اور جو پارٹی بھی جیتے اقتدار اس کے حوالے کیا جائے یہی جمہوریت کا حسن اور روایت بھی ہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں اس سیاسی صورتحال کے اندر جہاں بہت زیادہ پولیٹکل پولرایئزیشن ہو چکی ہے وہاں انتخابات کا نتیجہ انجنیئر ڈ کرنے یا بدلنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج پاکستان کے لئے بہت خطرناک ہو سکتے ہیں تو میری درخواست ہے تمام مقتدر حلقوں سے ، عدلیہ سے اور الیکشن کمیشن سے ،خدارا ملک میں بر وقت انتخابات کا شفاف اور غیر جانبدارانہ انعقاد کروایا جائے جو ملک کی ترقی اور استحکا م کے لئے بہت ضروری ہے۔