اسلام آباد: اتوار کو اپنے بیان میں ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا نے کہا کہ کلبھوشن یادیو حاضر سروس افسر ہے۔ کلبھوشن یادیو اور دیگر بھارتی قیدیوں کا معاملہ مختلف ہے اس کا سول قیدیوں سے تعلق نہیں جوڑا جا سکتا۔ ۔ کلبھوشن یادیو کو ’’را‘‘ نے پاکستان میں دہشتگردی کے لیے بھیجا تھا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کہ پاکستان 2008 کے قونصلر رسائی معاہدے پر مکمل عملدرآمد کر رہا ہے۔ بھارت نے 107 ماہی گیروں اور 85 عام شہریوں تک رسائی نہیں دی۔ بھارت دوطرفہ قونصلر رسائی کے معاہدے پر عملدرآمد کرے۔
ترجمان نے کہا کہ پاکستانی مریضوں کے لئے میڈیکل ویزے پر شرائط لاگو کئے جانے سے بھارت کے انسانی ہمدردی کے دعوے حقیقت کے منافی نظر آتے ہیں۔
رواں سال 10 اپریل کو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو پاکستان کی جاسوسی اور کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔ اس کے بعد بھارت اس کی پھانسی کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لیا گیا تھا۔
15 مئی کو عالمی عدالت انصاف نے حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے پاکستان کو حکم دیا تھا کہ حتمی فیصلے تک کلبھوشن کو پھانسی نہ دی جائے۔ جج رونی ابراہم نے بھارت کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی بھی دینی چاہیئے۔
خیال رہے کہ 3 مارچ 2016 کو حساس اداروں نے بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے بھارتی جاسوس اور نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا تھا۔ را' ایجنٹ کی گرفتاری کے چند روز بعد اس کی ویڈیو بھی سامنے لائی گئی تھی، جس میں کلبھوشن یادیو نے اعتراف کیا تھا کہ اسے 2013 میں خفیہ ایجنسی 'را' میں شامل کیا گیا اور وہ اس وقت بھی ہندوستانی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے۔
کلبوشھن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد 'را' کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔
ویڈیو میں کلبوشھن نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔کلبھوشن یادیو کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کی متعدد کارروائیوں کے پیچھے 'را' کا ہاتھ ہے۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں