لاپتہ افراد کا مسئلہ سنجیدہ نوعیت کا ہے، کیس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے نہیں دیں گے: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

لاپتہ افراد کا مسئلہ سنجیدہ نوعیت کا ہے، کیس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے نہیں دیں گے: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
سورس: file

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد اور جبری کمشدگیوں کیخلاف کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔ 

سپریم کورٹ میں لاپتہ افراد اور جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کر رہا تھا، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل تھے۔  اعتزاز احسن کی جانب سے عدالت میں اُن کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل دیے۔ وکیل شعیب شاہین نے شیخ رشید، فرخ حبیب، صداقت عباسی اور اعظم خان سے متعلق دلائل دیے۔

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ لاپتہ افراد کا کیس سنجیدہ نوعیت کا ہے، کیس کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے نہیں دیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کا مزاق بنانے کی اجازت نہیں دیں گے، کسی کے بھی ساتھ زیادتی ہو تو اُس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، ہمارے لیے ہر شہری محترم ہے چاہے وہ کسی بھی پارٹی کا ہو۔

 لاپتہ افراد کے درخواست گزار خوشدل خان ملک نے کہا کہ عدالت حکومت کو جبری گمشدہ افراد سے متعلق قانون سازی کا حکم دے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے سکتی ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی، صرف قانون کالعدم کر سکتی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے، ہم پارلیمان کو قانون سازی کرنے کا حکم نہیں دے سکتے، قانون بن گیا ہے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، اسے پڑھ لیں، ہم سمجھتے تھے کہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ اہم ہے تو کیس لگا دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن بنا تو ہوا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کون سا کمیشن بنا ہے؟

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتہ افراد کمیشن بنایا گیا، اس کمیشن نے اب تک کچھ نہیں کیا، عدالت حکومت سے پوچھے 50 سال سے لاپتہ افراد پر قانون سازی کیوں نہیں کی؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت کیسے پارلیمنٹ کو حکم دے سکتی ہے کہ فلاں قانون سازی کرو؟ آئین کی کون سی شق عدالت کو اجازت دیتی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے؟

پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ہماری اپیل پر رجسٹرار کے اعتراضات ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آفس کی جانب سے لگائے گئے اعتراضات ختم کرتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے شعیب شاہین سے استفسار کیا آپ تو اعتزاز احسن کے وکیل نہیں ہیں؟ وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ لطیف کھوسہ کا بیٹا گرفتار ہے تو مجھے وکالت نامہ دیا گیا ہے، ہماری درخواست پر اعتراضات عائد کیے گئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اعتراضات کو خارج کر کے درخواستیں سن رہے ہیں کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، میری غیر موجودگی میں کچھ ہوا، میں نے واپس آتے ہی یہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی ہیں، آپ ذاتی بات نہ کریں، لاپتہ افراد سے متعلق بات کرنے ہے تو کریں۔

چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے سوال کیا کہ آپ ان کے کیس کیسے لڑ رہے ہیں، ہم آپ کو سیاسی باتیں کرنے نہیں دیں گے، ابھی تک آپ نے ایک سیاسی جماعت کی باتیں کی ہیں، سیاسی باتیں نہ کریں، یہ میڈیا پر جا کر کر لینا، ہم یہاں آپ کو سیاسی باتیں نہیں کرنے دیں گے، ہم آپ کو اپنا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دیں گے، جب آپ ایک مخصوص سیاسی جماعت کی بات کریں گے تو سوال بھی اٹھیں گے، ہم آپ کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی اجازت نہیں دیں گے، پاکستان کا مسئلہ ہے کہ جو آدمی عہدے پر ہو وہ ذمے داری نہیں لیتا، جو آدمی عہدے پر ہو خود ذمے داری نہیں لیتا دوسرے پر ڈال دیتا ہے۔

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ شیخ رشید کو گمشدہ کیا گیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا شیخ رشید کو معصوم افراد کی فہرست میں شامل کریں؟ فرخ حبیب، صداقت عباسی وغیرہ سب سیاسی ورکز ہیں۔وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ یہ تمام افراد لاپتہ رہے اور واپس آکر پارٹی بدل لی۔


چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ جو آپ کی پارٹی چھوڑ گئے وہ سب واپس آجائیں؟ لاپتہ افراد کیس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے نہیں دیں گے، شیخ رشید نے دھرنا کیس میں نظرثانی دائر کی تو وہ اس کیس میں خود نہیں آسکتے؟ شیخ رشید اگر کہیں کہ انہوں نے آپ کو کیس لڑنے کا نہیں کہا تھا تو کیا کریں گے؟ لاپتہ افراد کے مسئلے کو سیاسی نہ بنائیں، لاپتہ افراد کا مسئلہ سنجیدہ نوعیت کا ہے، اعتزاز احسن نے درخواست میں کن تحفظات کا اظہار کیا؟

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ لوگوں کی گمشدگی اور پھر ایک طرح سے نمودار ہونے کا نکتہ اُٹھایا گیا، اعتزاز احسن نے اوور آل صورتِ حال پر درخواست دائر کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اعتزاز احسن کے سامنے ان تمام افراد کو اٹھایا گیا یا پھر ان افراد نے کہا کہ ہمارا کیس لڑیں؟ یہ تمام لوگ اثرورسوخ والے ہیں۔جس پر شعیب شاہین نے کہا کہ ظلم تو اثر و رسوخ رکھنے والوں پر بھی ہوسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ ہم کیا کریں؟ اپنی استدعا بتائیں۔ وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ لاپتہ افراد کمیشن اپنا کام نہیں کر سکا اور نہ کر سکتا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ یہ کمیشن کب کا ہے؟ تب کس کی حکومت تھی؟ وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ 2011ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران لاپتہ افراد کمیشن بنا۔ چیف جسٹس نےکہا کہ کیا کہ اعتزاز احسن کیا اپنی ہی حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کرانا چاہتے ہیں؟ بل غائب ہونے کا اگر سنجرانی صاحب پر الزام لگا رہے ہیں تو انہیں پارٹی کیوں نہیں بنایا، یہ بہت عجیب بات ہے کہ وفاقی وزیر کہہ رہا ہے کہ اس کا بل ہی غائب کر دیا گیا۔

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ میں شیریں مزاری کی رپورٹ پر انحصار کر رہا ہوں، شیریں مزاری نے رپورٹ دی کہ قومی اسبلی سے بل پاس ہوا اور سینیٹ میں غائب ہو گیا۔ چیف جسٹس نے وکیل شعیب شاہین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈائیلاگ بازی یہاں نہ کریں، آپ نے پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن کا ذکر نہیں کیا، آپ کی پوری درخواست ایک سیاسی جماعت کے گرد گھومتی ہے، کیا آرٹیکل 184/3 کے تحت ایک سیاسی مسئلے کو سنیں؟ انگریزی محاورہ ہے کہ اگر آپ گرمی برداشت نہیں کر سکتے تو کچن میں بھی نہیں جا سکتے، مطیع اللّٰہ جان بھی تو غائب ہوئے تھے ان کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ مطیع اللّٰہ جان کس حکومت میں غائب ہوئے تھے؟

وکیل شعیب شاہین نے عدالتی سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ مطیع اللّٰہ کے غائب ہونے کے وقت پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کیوں نہیں کھڑے ہوئے مطیع اللّٰہ جان اور اسد طور کے لیے؟ کسی کے بھی ساتھ زیادتی ہو تو اس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، ہمارے لیے ہر شہری محترم ہے وہ چاہے کسی بھی پارٹی سے ہو، میں بلوچستان ہائی کورٹ میں تھا تو ہر منگل کو لاپتہ افراد کے کیس سنتا تھا، اس وقت بلوچستان ہائی کورٹ نے بہت افراد کو بازیاب بھی کروایا، آمنہ جنجوعہ نے لاپتہ افراد سے متعلق بلاتفریق سب کے لیے آواز اٹھائی، آپ نے تفریق رکھی، آپ کے بعد آمنہ جنجوعہ کو سننا ہے۔

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ کمیشن کی اپنی رپورٹ کے مطابق ابھی تک 2200 لوگ لاپتہ ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کتنے لوگ بازیاب ہوئے۔

چیف جسٹس واضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم اب بس اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں گے، جو اثر و رسوخ والے لوگ ہیں وہ خود آجائیں گے، یہاں سیاسی باتیں نا کریں، کیونکہ ہم اس بات کی اجازت نہیں دیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان اندرونی طور پر مضبوط ہوگا تو کوئی بیرونی طاقت اس کا کُچھ نہیں بگاڑ سکتی۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجےتک ملتوی کر کے کل کی سماعت میں اٹارنی جنرل آف پاکستان کو بھی طلب کر لیا گیا۔ واضح رہے کہ اعتزاز احسن سمیت متعدد افراد نے جبری گمشدگیوں کے خلاف درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔

مصنف کے بارے میں