ایک اور سال بیت گیامگر عافیہ صدیقی نہیں آئی

ایک اور سال بیت گیامگر عافیہ صدیقی نہیں آئی

کتنے دور آئے چلے گئے۔کتنی رُتیں آئیں اور بیت بھی گئیں،ایک اور سال بھی بیت گیا۔مگر اب بھی انتظار باقی ہے۔ ایک بوڑھی ماں پاکستان کے ہر طاقتور شخص اور حکمرانوں کو آج بھی التجائیہ نظروں سے دیکھ رہی ہے اور آج بھی وہ اپنی بوڑھی آنکھوں میں آنسو سمیٹے ،بوڑھی سانسوں کے ساتھ ایک امید باندھے اپنی ٹکٹکی لگائے گھر کے داخلی دروازے کو بڑی ہی آس کے ساتھ دیکھ رہی ہے ۔قوم کی بیٹی کو امریکہ کی قید میں آج 18سال کا عرصہ بیت چُکا ہے۔گزشتہ روز میرے پروگرام بدلتا زمانہ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اپنی زبانی تمام اصل روداد بیان کی اور بہت سے اہم انکشافات بھی کئے۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی جو کہ2002میں امریکہ سے ہائیر تعلیم حاصل کرکے پاکستان آئیں تو اُنہوں نے  پاکستان میںایک تعلیمی انقلاب لانے کے لیے ایک پورا تعلیمی نظام بنایا تھا۔ایک سوچ،ایک خواب لیے قوم کی بیٹی اس قوم کی خدمت کرنے کے لیے میدان عمل میں آئیں کہ اس قوم اور ملک پاکستان کے مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے ایک بات کہی کہ پاکستان کے مسائل تعلیم و تربیت کے فقدان کیوجہ سے ہیں۔اور پاکستان کے فرسودہ تعلیمی نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اسی سوچ کو لئے وہ ہائیر سٹڈی کے لیے امریکہ گئیں جہاں سے انہوں نے ہارورڈ، ایم آئی ٹی جیسی شاندار یونیورسٹیز سے تعلیم حاصل کی اور یہ دُنیا کی مانی ہوئی یونیورسٹیز ہیں ۔اُنہوں نے بچوں کے ذہنی برداشت پر بھی پی ایچ ڈی کی ہے۔اپنی ایجوکیشن کو مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے پاکستان میں عملی طور پر کام کرنے کی بنیاد رکھی۔
یہ توتھی اُن کی تعلیمی قابلیت مگر اس گوہر نایاب کو کیسے امریکہ نے چھینا یہ ایک الگ داستان ہے۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے بقول جو کہ بہن ہیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جو کہ اس وقت تمام معاملے کو ایک بہن اور اپنی بہن کی رہائی کے لیے ہر فورم پہ اس کیس کی وکالت بھی کر رہی ہیں۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا کہنا ہے کہ ایک روز ڈاکٹر عافیہ صدیقی اسلام آباد جا رہی تھیں کہ اسلام آباد پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی سے اغواء کر لیا گیا۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اعتراف کیا کہ جب صدر اوباما جا رہے تھے تو اُس وقت عام معافی کا کہا جا سکتا تھاوہ اُس وقت ن لیگ کے پاس بہت اچھا موقع تھا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کروا سکتے تھے۔مگر اُس وقت بھی معاملے میں کہیں نہ کہیں جھول رہ گئی اور اُس وقت نواز شریف کی حکومت بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا نہ کروا سکی۔اُس کے بعد پھر پی ٹی آئی کے جلسے جلوس اور دھرنے شروع ہوگئے۔اُس وقت عمران خان صاحب نے مختلف انٹر ویوز اور اپنی تقاریر میں باقاعدہ اس ایشو کوجگہ دی اور کئی بار کہا کہ جب ان کی حکومت آئے گی تو وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کروائیں گے۔اب جبکہ وہ وزیر اعظم کے منصب پر ہیں اور بہت ذمہ داری سے اس معاملے کو حل بھی کر سکتے ہیں مگر اس طرف عدم سنجیدگی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔
مگر ایک اچھی بات جو کہ ممبر پنجاب اسمبلی ن لیگ پیر اشرف رسول صاحب جو کہ اُس وقت پروگرام بدلتا زمانہ میں موجود تھے اُنہوں نے کہی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مسئلہ سیاسی، یا کوئی جماعتی مسئلہ نہیں ہے یہ تو پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ اُن کی بات درست ہے جسے سب کو کُھلے دل سے ماننا چاہیے۔میرے علم کے مطابق امریکہ کا 3سال پہلے یہ کہنا تھا کہ اگر ہمیں حکومت کی طرف سے کوئی لیٹر مل جائے  توڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے اُس پر سوچا جا سکتا ہے اور رہائی ممکن ہو سکتی ہے۔مگر ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ اُس درخواست کو جمع کروائے بھی کئی سال گزر چکے ہیں مگر معاملہ جُوں کا تُوں ہی ہے۔ یہ سوال سب کے ذہنوں میں بھی آتا ہے کہ آخر یہ معاملہ حل کیوں نہیں ہو رہا اور آخر جھول کدھر ہے تو میرے پوچھنے پہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بتایا کہ ہمارے وکلاء جو امریکہ میں ہیں بقول اُن کے کہ رکاوٹ پاکستان میں ہے اور پاکستان کے فارن آفس میں ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے بقول اُن کے وکلاء نے امریکہ میں پروگرام کیا اور اُنہوں نے باقاعدہ فارن منسٹر کی تصویر لگا کر اس بات کا انکشاف کیا کہ پرابلم اُن کی طرف سے ہے۔یعنی شاہ محمود قریشی کی طرف سے ہے۔
ان سارے حقائق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل نے ایک لیٹر بھیجا کہ اگر اس طریقے سے ڈرافٹ بنا کر بھیجا جائے تو کام آسان ہو سکتا ہے۔ کیونکہ کچھ قانونی پیچیدگیاں اور الفاظ کو اُسی طرح سے فالو کرنا پڑتا ہے۔امریکہ کے اٹارنی جنرل نے یہاں تک کہا کہ وہ ڈرافٹ بنا کر آپ سائن کرکے مجھے دیں میں نے ہی آگے جا کر سائن کروا کر اُس کی رہائی کا کام کروانا ہے۔اس بات کی اُنہوں نے گارنٹی دی بلکہ وہ خود پاکستان اس کام کو کرنے آئے تو اُس وقت وزیراعظم اور اہم عہدیدران نے بھی ملاقات کی تھی۔مگر اس سارے کام کو آگے پہنچانے کے لیے فارن منسٹر کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے اس سارے معاملے کو انہوں نے ہی لیڈ کرنا ہوتا ہے مگر شاہ محمود قریشی صاحب جب اس منصب ذمہ داری پہ آئے تو ڈاکٹر فوزیہ صدیقی صاحبہ کا کہنا ہے کہ وہ تمام ڈرافٹ او ر ڈاکومنٹ میں نے شاہ محمود قریشی صاحب کو بھی دئیے تھے اور اُنہوں نے اس معاملے کو حل کر دینے کی یقین دہانی بھی دلائی تھی۔اس بات کو گزرے بھی اب تو 3سال کا عرصہ بیت چُکا ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی صاحبہ نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اب میں اس معاملے کے بارے میں بھی شاہ محمود قریشی صاحب سے پوچھتی بھی ہوںتو وہ مجھ سے کسی بھی طرح کی اپ ڈیٹ نہیں دیتے افسوس کی بات اُن کے بارہا پوچھنے پہ صرف اتنا بتا دیا گیا کہ ہم ڈاکڑعافیہ صدیقی سے ملتے رہتے ہیں ۔مگر جب سے یہ حکومت آئی ہمارا ایک دفعہ بھی رابطہ نہ ہو سکا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ یہ ہمارے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ صاحبہ نے کہا کہ نواز شریف کے دور میں ،میں فارن آفس کال کرتی تھی اگر بات کیے 2 ہفتے بیت جاتے تھے تو اُس وقت کے فارن منسٹر فوراً ایمبیسی کال کرتے تھے اور تاکید کرتے تھے سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہیے۔مگر اب 5سال کا عرصہ بیت چُکا ہم نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی کی آوازُتک نہیں سنی ہے۔اگر ہم کوئی اپ ڈیٹ یا کسی رپورٹ کا مطالبہ کرتے ہیں تو فارن آفس سے ایک بات سُننے کو مل جاتی ہے کہ ہم کسی بھی طرح کی بات شئیر نہیں کر سکتے اور اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے بات کروائی جائے تو ہمیں یہ جواب سننے کو ملتا ہے کہ وہ نہ آپ سے بات کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی آپ سے ملنا چاہتی ہے اور ہمارے وکلاء کو بھی غلط انفارمیشن دی جاتی ہے۔
میں اپنے کالم کے اختتام پہ اپنے تمام حکمرانوں خصوصا فارن منسٹر کو مخاطب کرکے لکھ رہی ہوںکہ اس معاملے کو سیریس لیا جائے اگر ہمارے ملک سے ریمنڈ ڈیوس جیسا شخص جا سکتا ہے آسیہ بی بی جا سکتی ہے تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے نام پہ اپنی اپنی سیاست کو مت چمکائیںکیونکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی کسی کی ماں اور کسی کی بیٹی ہے اگر وہ قوم کی بیٹی نہیں تو اُن سب کو ڈاکٹر عافیہ کی ضرورت ہے لہذا اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی کامظاہرہ کیا جائے۔

مصنف کے بارے میں