اپنا گھر بنانا ہر انسان کا خواب ہے۔ جب کوئی شخص کسی بھی ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹ بک کراتا ہے تو وہ اور اس کے خاندان کے لوگ خوشی کے ساتویں آسمان پر ہوتے ہیں۔ انھیں اپنا گھر اپنی جنت کا خواب پورا ہوتا نظر آرہا ہوتا ہے۔ بڑے شہروں میں جدید سہولیات سے مزین ہاؤسنگ سوسائٹی میں گھر بنانا جتنا آسان اور پرکشش دکھائی دیتا ہے دراصل اتنا ہر مشکل اور کٹھن معاملہ بھی ہے۔ پاکستان میں ڈویلپر مافیا نے لوگوں سے ان کی خوشیا ں حتی ٰ کہ زندگیا ں تک چھین لی ہیں۔ لوگوں نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی ایسی نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں ڈال دیں جنھوں نے دعوے اور وعدے تو بڑے بڑے کئے لیکن ڈلیور نہ کر سکے۔ کئی بزرگ دنیا سے اپنے گھر کا خواب لئے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ میں ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جو ان واقعات کی وجہ سے اپنا دماغی توازن تک کھو بیٹھے۔ میرے ایک دوست ہیں اقبال صاحب جو طویل عرصے سے سعودی عرب میں ہیں۔ یہ مدینہ منورہ میں مقیم ہیں۔ پاکستان سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ ان کی ایک خاصیت ہے۔ ان کے چہرے پر ہر وقت ایک مسکراہٹ اور اطمینان نظر آتا ہے۔ چند برس قبل جب میں جب عمرہ کرنے گیا تو مدینہ میں میرے میزبان اقبال صاحب ہی تھے۔ یہ روزانہ اپنے گھر سے میرے لئے خاص طور پر پاکستانی کھانا بنوا کر لاتے۔ اس بار کچھ اداس لگے۔ میرے کافی اصرار پر بتایا کہ ان کے ساتھ پاکستان میں فراڈ ہو گیا ہے۔ ان کی کہیں بھی داد رسی نہیں ہو رہی۔ ان کی فیملی اوکاڑہ میں رہائش پذیر تھی۔ بچے سکول میں پڑھتے تھے۔ اقبال صاحب کی خواہش تھی کہ جب بچے بڑے ہوں تو کالج کی تعلیم لاہور میں حاصل کریں۔ اس کے لئے فیملی کو لاہور شفٹ کیا جائے۔ انھوں نے برسوں کی محنت اور بچت سے جوڑی گئی رقم سے لاہور کی ایک بڑی سوسائٹی میں گھر بک کرایا۔ یہ گھر تمام تر ڈویلپمنٹ کے ساتھ انھیں ڈھائی سال میں ملنا تھا۔ لیکن اب چھ برس ہو گئے تھے۔ جب بھی ڈویلپر کو فون کرتے ایک ماہ کا کہہ کر ٹال دیتا۔ ان چھ برسوں میں مختلف ڈویلپمنٹس کے نام پر لاکھوں روپے مزید اینٹھ چکا ہے۔ بولے میں بہت دلبرداشتہ ہو چکا ہوں۔اب میرے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ غلاف کعبہ پکڑ کے اللہ کے حضور رو رو کر ان سوسائٹی والوں کو بددعائیں دوں جنھوں نے مجھے خون کے آنسو رلا ئے ہیں۔میں نے اسے اسی وقت اس ڈویلپر کوفون کیا اور اقبال صاحب کی کیفیت سے آگاہ کیا۔ بددعاؤں سے بچنے کی تلقین کی۔ خدا نے اس کے دل میں رحم ڈالا اوراقبال صاحب کا کام ہو گیا۔ اب ان کو گھر مل چکا ہے۔ ایسی لاکھوں کہانیاں ہیں۔ کروڑوں پاکستانی ڈویلپر مافیاکے ڈسے ہوئے ہیں۔ یہ مافیا ایک جانب تو اپنے گھر کا خواب دیکھنے والے پاکستانیوں کولوٹ رہاہے تو دوسری جانب ملکی خزانے کو بھی اربوں روپے نقصان پہنچا رہا ہے۔۔ پاکستان بالخصوص پنجاب میں رہائشی کالونی بنانے کے لئے بہت سخت قوانین ہیں۔ قواعد کے مطابق اگر کوئی ڈویلپر، لمیٹڈ کمپنی یا کو آپریٹو سوسائٹی، ہاؤسنگ اتھارٹی یا بلدیاتی ادارے کو نئی ہاؤسنگ سکیم کے لئے درخواست جمع کرائے تو اس کے لیے ضرور ی ہے کہ تمام اعتراضات سے پاک زمین کے ملکیتی ثبوت فراہم کرے۔ اس کے بعد سوئی گیس، واسا، محکمہ مال، محکمہ ماحولیات، لیسکو سے این او سی حاصل کرے۔ اس کے بعد کالونی کا نقشہ، سیورج، گلیوں، بجلی کی تنصیبات، واٹر سپلائی اور دیگر ٹیکنیکل منظوریاں حاصل کرے۔ اس پیپر ورک کے بعد ڈویلپرکی ذمہ داری ہے کہ گلیوں، سڑکوں، پارکوں، قبرستان، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، واٹرسپلائی اور ڈسپوز ایبل پمپ کے لئے مختص زمین سرکاری محکمہ کے نام انتقال کرائے۔ اس کے بعد ڈویلپر کو این او سی ملتا ہے اور وہ پلاٹ بیچنے کا مجاز ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان کی بد قسمتی ہے۔ سب سے آخری کام سب سے پہلے کیا جاتا ہے۔ ڈویلپر متعلقہ محکموں میں موجود افسران کو ہڈی ڈال کر پلاٹ بیچنے کا کام شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے راتوں رات سارے کاغذات بن جاتے ہیں۔ بس این او سی ملنے کی دیر ہوتی ہے ڈویلپر اپنے منظور شدہ ایجنٹس کو بھاری کمیشن دے کر عام لوگوں کو لالچ دیتے ہیں کہ پری لانچنگ سے قبل پلاٹ بک کرائیں۔ پھر یہ ریٹ نہیں ملے گا۔ یہ پلاٹ فائلوں کی شکل میں بکتے ہیں۔ ان کے انھوں نے خود سے ہی نمبر لگائے ہوتے ہیں۔ اگر کسی ڈویلپر کے پاس پانچ سو کنال جگہ ہے تو وہ ان ایجنٹس کے ذریعے کراچی سے خیبر تک پچاس ہزار تک فائلیں بیچ دیتا ہے۔ ایک چھوٹی سی سوسائٹی اسے دنوں میں ارب کھرب پتی بنا دیتی ہے۔ سادہ لوگ ان کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔کئی سال قسطیں وصول کرنے کے بعد بھی مقررہ وقت پر پلاٹ ڈیلیور نہیں کیا جاتا۔ بلکہ مقررہ تاریخ کے بعد بھی پانچ دس سال مزید خوار کیا جاتا ہے۔ اصول کے مطابق اگر پلاٹ تاخیر سے دیا جائے تو ڈویلپر کو اس کا کرایہ ادا کرنا چاہئے۔ لیکن یہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔ جب کوئی شخص پلاٹ خریدتا ہے تو اس سے یہ ضمانت لی جاتی ہے کہ وہ بروقت قسط ادا کرے گا۔ لیکن یہ کہیں نہیں لکھا جاتا کہ پلاٹ طے شدہ شیڈول سے دیر سے ملنے کی صورت میں ڈویلپر کو کیا جرمانہ ہو گا۔ ایک اور اہم بات کہ صارف سے جرمانہ نقد وصول کیا جاتا ہے تاکہ ڈویلپر کو ٹیکس نہ دینا پڑے۔ اس واردات میں ایف بی آر کے اہلکار مل کر قومی خزانے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اگر پرائیویٹ ڈویلپرز کا ریکارڈ چیک کیاجائے تو پتہ چلے گا کہ اب تک اربوں روپے کا ٹیکس چوی کیا جا چکا ہے۔ میرے ساتھ خود یہ واقعہ پیش آ چکا ہے۔ میں نے لاہور کی ایک مشہور ترین سوسائٹی میں 2013 میں ایک کنال کا پلاٹ بک کرایا۔ جو کہ 2016 میں ملنا تھا۔ آج 2023 میں بھی سوسائٹی پلاٹ ڈیلیور نہیں کر سکی۔ جب تنگ آ کرمیں نے پلاٹ بیچنا چاہا تو پتہ چلا سوسائٹی نے مجھے دو قسطیں شارٹ ہونے پر ایک کروڑ کا جرمانہ کر رکھا ہے۔ جبکہ پلاٹ کی کل قیمت ایک کروڑ تیس لاکھ ہے۔ یہ ایک ایک دن کا سود چارج کر تے ہیں۔ میں نے صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، وزیر ہاؤسنگ،چیف سیکریٹری اور متعلقہ محکموں کو درخواستیں دیں۔اخبارات کے مدیران اور بڑے اینکرز کو خطوط لکھے کہ مجھے انصاف دلانے میں مدد کریں۔ یہ ڈویلپر مافیا اسقدر طاقتور ہے کہیں بھی شنوائی نہیں ہو سکی۔ بڑی سوسائٹیوں کے مالکان نے ریٹائرڈ بریگیڈیئر، کرنل اور میجر اور ملازم رکھے ہوئے ہیں۔ جو غریب ان کے دفتر میں حق مانگنے آئے پہلے تو وہ ان افسروں تک پہنچ نہیں سکتا۔ اگر کوئی ان تک رسائی حاصل کر بھی لے تو یہ تواسے گردن سے گھسیٹ کر باہر پھنکوا دیتے ہیں۔ یہ طاقتور ملازم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اداروں سے کیسے کام لینا ہے۔ ان کی کسی محکمے میں فائل نہیں رکتی اور نہ ہی ان کیخلاف شکایت وصول کی جاتی ہے۔
اگر بالفرض کوئی ادارہ شکایت وصول کر بھی لے تو وہ ان سے مک مکا کر لیتا ہے جبکہ سائل رل جاتا ہے۔ ڈویلپر تک تو کسی بھی صارف کی رسائی ممکن نہیں۔ یہ لوگ درجنوں گارڈز کے ساتھ بڑی گاڑیوں میں چلتے ہیں۔ زیادہ تر تو ملک سے باہر بیٹھ کر اپنا بزنس آپریٹ کر رہے ہیں۔ اگرکسی طرح سے نیب تک رسائی حاصل کر لی جائے تو ملی بھگت کے ذریعے دس سے پندرہ سال پرانے ریٹ پر رقم واپسی کی جاتی ہے۔ جبکہ ڈویلپر اس پیسے کو استعمال کر کے اربوں بنا چکا ہوتا ہے۔ وزیراعظم، وزیر ہاؤسنگ، صوبائی اور مرکزی محکمے، ڈویلپمنٹ اتھارٹیز کیا نہیں جانتیں کہ یہ مافیا عوام کو کیسے لوٹ رہا ہے؟ تو پھر یہ خاموشی کیوں؟ سب جانتے ہیں یہ ڈویلپرز ہر سیاسی جماعت کا حصہ بن چکے ہیں یا پھر سپانسر۔ یہ ان جماعتوں جلسوں اورانتخابی مہم کے خرچے اٹھاتے ہیں۔ جب یہ جماعتیں حکومت میں آتی ہیں تو ان ڈویلپرز کی لوٹ مار اور بڑھ جاتی ہے۔ یہ ان ٹچ ایبل بن جاتے ہیں۔ کیا سیاسی جماعتوں کو نہیں معلوم ہوتا کہ کہ یہ پیسہ جو پارٹی پر خرچ ہو رہا ہے کہاں سے آیا ہے؟ کس طرح اپنی چھت کا خواب سجائے معصوم لوگوں کے ارمانوں کا قتل ہوا ہے۔ لیکن ہم صرف اپنے فائدے کا سوچتے ہیں۔ ڈویلپرز اپنا 95 فی صد پیسہ ملک سے باہر لے جاتے ہیں۔ دوبئی، لندن، یورپ، امریکا کی پراپرٹیز میں خاموشی سے سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ یہ ملک کو ہر طرح سے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کروڑوں پاکستانی اس مافیا کی زد میں جنھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ نظام چلانے والے معمولی فائدے کی خاطر ملک کا نقصان اور عام آدمی کی آہیں اور بدعائیں سمیٹ رہے ہیں۔