پشاور پولیس لائنز پر دہشتگردوں کاحملہ میرے لئے حیرت کی بات نہیں کہ انسان کو اپنے دشمن سے کبھی رحم کی توقع نہیں رکھنی چاہیے البتہ میں ابھی تک اس صدمے سے باہر نہیں آیا کہ عمران نیازی نے 100 دہشتگردوں کو دہشتگردوں سے خیرسگالی کی طور پر رہا کیسے کردیا کہ جن میں سزائے موت کے قید ی بھی شامل تھے۔ دہشتگردی کے حوالے سے میں زندگی میں کبھی ایک نینو سیکنڈ کیلئے بھی کنفیوژن کا شکار نہیں ہوا اورنہ ہی اپنا موقف لکھتے اوربولتے کبھی کسی مصلحت یا مصالحت کو پیش نظر رکھا ہے۔ ریاست کا قاتلوں کے کسی لشکر سے کوئی بھی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ معاہدہ دراصل ریاست کے وجود کے خاتمے کی ابتدائی نشانیاں ہوتی ہیں۔پاکستان میں ہونے والی فوجی بغاوتوں بارے بھی میراموقف دو ٹوکہ ہے کہ یہ آئین توڑنے کی کامیاب کوشش تھیں جس پر آئین پاکستان اعلانیہ جزا سزا کی بات کررہا ہے لیکن فوجی جنتا کے خلاف ہم نے ہمیشہ جمہوری جدوجہد کی ہے اور افواج ِ پاکستان کے مقابل کسی اجنبی لشکر کی حمایت کا تصور بھی ہماری زندگیوں میں نہیں۔ تحریک انصاف میں زندگی کا طویل عرصہ بطور سیاسی کارکن گزارنے کے باوجود طالبان بارے میرے نقطہ نظر سے عمران نیازی بخوبی واقف تھے۔میں نے پرویز مشرف اور طالبان کی حمایت کے عمرانی موقف کے ساتھ ہمیشہ پارٹی کے اندر رہ کربھی اپنا اختلاف نہ صرف رکھا بلکہ کھل کر اس کا اظہار بھی کیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے مشرف کے خلاف سٹینڈ پر جب عمران نے وکلاء تحریک میں جانے کیلئے پر تولنا شروع کیے تو میں نے چیئرمین تحریک انصاف عمران احمد خان نیازی سے حامد خان کی موجودگی میں سوال کیا کہ ”کیا کسی غیر مقتدر ریاست کا کوئی ادارہ مقتدر ہوسکتاہے؟“۔ جس کا جواب یقینا نفی میں تھا لیکن حامد خان خود کو چونکہ اُس وکلا ء تحریک سے الگ نہیں رہ سکتے تھے سو وہ تحریک انصاف کو بھی گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے گئے جب کہ ہماری جدو جہد ریاست کی خود مختاری کیلئے تھی جو آج بھی ہے اورہمیشہ رہے گی۔ ہم کنویں میں سے ”بوکے“نکال رہے ہیں لیکن کتا نکالنا ہمیں ابھی تک نصیب نہیں ہوا۔ میں تو یہ گفتگو بھی سننا ریاست کے خلاف جرم سمجھتا ہوں کہ آپ فوج کو برابری کی بنیاد پر کسی دہشتگرد گروہ کے ساتھ بٹھا دیں۔
آج ایک بار پھر ہم اُسی بے رحم قاتل کے رحم و کرم پر ہیں جو اس سے پہلے بھی ہمارے شہر کے گلی کوچوں میں آگ و خون کا وحشیانہ کھیل کھیلتا رہا ہے۔ پاکستانی عوام اور ریاستی اداروں نے جانی اور مالی قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کرکے اس فتنہ کوکسی حد تک دبایا تھا لیکن عمران خان کے گزشتہ 10 سالہ خیبر پختون خوا کے دور ِ اقتدار اور ساڑھے تین سالہ اقتدارِ پاکستان نے دہشتگردی کو نئے سرے سے پنپنے کا نہ صرف موقع دیا بلکہ گزشتہ خیبر پختون خوا حکومت تو تھی ہی دہشتگردوں کے رحم و کرم پر ٗ جو آج کھل کرسامنے آ گئے ہیں۔ طالبان کی حمایت کے حوالے سے عمران پرکوئی الزام نہیں بلکہ اس پر عمران نیازی نہ صرف فخر کرتاہے بلکہ افواج پاکستان کے مقابلے میں اُن کی ہیروشپ بنانے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ کسی ریاستی ادارے پر حملہ صرف”ریاست پر حملہ“ کہہ کرجان نہیں چھڑائی جا
سکتی کیونکہ انتظامی ادارے پر حملہ کرنے کا مقصد ہی عوام کو یہ یقین دلانا ہوتا ہے کہ ”یہ ادارے آ پ کی حفاظت کرنے کے لائق نہیں“جس سے عوام میں اداروں کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے۔ لوگ اُن اداروں میں اپنے بچے بھرتی کراتے ہوئے تذبذب کا شکار ہو کر سوچنا شروع کردیتے ہیں کہ جو ادارے اپنی حفاظت نہیں کر سکتے وہاں بچوں کوبھیجنے کا فائدہ کیا ہے؟ آپ نے اکثر دہشتگردی کے واقعات کے بعد سنا ہو گا کہ قوم کو قربانیاں دینا پڑتی ہیں لیکن جناب! قربانی دینے اور قربانی لینے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہم دہشتگرد ی کی جنگ میں مرنے والے عام شہریوں کو شہید بھی لکھتے ہیں اوراور قاتلوں کی مذمت بھی کرتے ہیں۔دشمن کی مذمت نہیں مرمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا پاک بھارت جنگ کے دوران کسی پاکستا نی کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ بھارتی افواج کی تعریف کرے یا پروپیگنڈہ کرتا پایا جائے کہ پاک آرمی یہ جنگ نہیں جیت سکتی؟ تو پھر مجھے اس سوال کا جواب سب ادارے مل کردیں کہ ہم نے وہ زبانیں ابھی تک بند کیوں نہیں کیں جن کا موقف یہ ہے کہ ابھی طالبان سے مذاکرات کی گنجائش موجود ہے اور اگر ہمیں شکست ہو گئی تو ہم اس پوزیشن میں بھی نہیں رہیں گے۔ آئی جی پولیس خیبر پختون خوا کی پریس کانفرنس نے مجھے انتہائی مایوس کیا جو ہمیں یہ بتا رہے تھے کہ زیادہ افراد کی موت مسجد کے بیم اور لینٹر گرنے سے ہو ئی ہیں۔ ایسے بیانات میں بھی مخالفین کیلئے نرم گوشہ نظر آتا ہے۔ ہم پہلے بھی اپنے شہید دفنا دفنا کرتھک چکے ہیں۔بندہ پوچھے! مسٹر آئی جی کیا بیم اور لینٹر کسی طوفان یا زلزلے کی وجہ سے گرے ہیں؟ چینل پر پشاور بلاسٹ کی ا طلاع آتے ہی میرے ذہن میں پہلا سوال یہ اٹھا کہ حملہ آور اتنا کچھ ایک قسط میں اندر نہیں لے جا سکتا؟ یقینا یہ اقساط میں اندر گیا ہے اور اندر ہی بارودی سامان سے سب کچھ تیار کیا گیا ہے۔ مدد گاروں اورسہولت کاروں کے ماسٹر مائنڈ کا تعلق پولیس لائنز سے باہر ہو سکتا ہے لیکن ایسا کرنے والے ناپاک وجود پولیس لائنز کے اندر ہی موجود ہیں۔
عمران نیازی نے بنی گالہ منتقل ہونے کا عندیہ دیا ہے جہاں اُن کے لئے دو کمرے بلٹ پروف بنا دیئے گئے ہیں اورمیں عمران خان کی پرانی تقاریر یاد کر رہا تھا جب اُسے اللہ کے علاوہ کوئی خوف نہیں تھا۔ سکون قبر میں تھا ٗ جو رات قبر میں آنی ہے وہ باہر نہیں آ سکتی تھی ”میں ڈرنے والا نہیں“ اللہ کے خوف کے علاوہ ہر خوف شرک ہے وغیرہ وغیرہ۔ اب عام ورکرز بے رحم دہشتگردوں کے رحم و کرم پرہوں گے اور ٹائیگر نیازی اپنے بلٹ پروف کمرے میں بیٹھا بہادری کا درس دے رہا ہو گا۔ شہید ہونے والوں کے خلاف ٹرینڈ چلاتا رہے گا۔ آئی ایس آئی چیف سے استعفا کا مطالبہ کرتا رہے گا جبکہ سانحہ ساہیوال میں انہیں خود استعفا دینا چاہیے تھا لیکن اُس وقت انہیں کسی بڑے آدمی کے سنہری اقوال یاد نہیں آئے۔ پاکستان چاروں جانب سے مشکلات میں گرا ہے اِن حالات میں پاکستان اورپاکستانیوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے 33 تینتیس سیٹوں سے خود کھڑے ہونے کی ڈرامے بازی کرکے پاکستان کو مزید مشکلات کا شکار کرنا انتہائی غیر سیاسی اور غیر محب وطن عمل ہے جس کی کسی صورت بھی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ دہشتگردی کی نئی لہر نے سوچ کے بہت سے دروازے کھول دیئے ہیں۔ حکومت ِ پاکستان کو نیشنل ایکشن پلان کی تمام دفعات پر عمل درآمد کرانا ہو گا ورنہ مجھے یہ لکھنے میں کوئی شرم ٗعار یا افسوس نہیں کہ لاہور میں ہونے والے خود کش حملوں میں ٗ میں نے ایسی بہت سی لاشیں دیکھی ہیں جن کے بازروں پر امام ضامن بندھا تھا جس سے میرا یقین اس بات پر مزید پختہ ہو گیا کہ جس کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست نہ لے امام ضامن بھی اُس کی کوئی حفاظت نہیں کرتا سو ہمیں پاکستان سے باہردیکھنے سے پہلے اپنی صفوں میں موجود دہشتگردوں کے حمایتیوں کو تلاش کر کے سنگین جرائم کی سنگین سزائیں دینا ہوں گی۔ قوم آج عمران نیازی سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ جناب نیازی صاحب! آپ نے کابینہ یا اسمبلی کے علم میں لائے بغیر ریاست پاکستان کے مجرم اپنے ذاتی تعلق بنانے کیلئے کیسے چھوڑ دیئے؟ جو آج پھر لیس ہو کر ہمارے بچوں ٗ بزرگوں اورجوانوں پر حملہ آور ہیں اور اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں ٗ درد کے انگنت افسانے ٗ یتیموں کے آنسو ٗ بیواؤں کے بین اوربوڑھے ماں باپ کی بد دعائیں جو ہر اُس شخص کیلئے ہیں جو کسی بھی حوالے سے اُن کے بچوں کے قتل عام میں ملوث ہے۔ قوم صرف نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد دیکھنے کی خواہشمند ہے تاکہ وہ اپنی آنے والی نسل کو ایک بہتر ماحول دے سکیں جہاں بارود سے گونجتی ہوئی دہشت یا خوف نہ ہو۔ایسا نہ ہونے کی صور ت میں امام ضامن بندھی لاشیں ملتی رہیں گی کہ انہیں بچانا اداروں کی ذمہ داری تھی۔