پنجاب میں سہ ماہی نگران حکومت کے عارضی حاکم، اس ملک کے مستقل حکمران پولیس اور سول افسران کے تبادلوں،تقرریوں کے لئے ایسے انٹرویوز کر رہے ہیں جیسے وہ تین ماہ کے لئے نہیں بلکہ طویل مدت کے لئے حکومت کرنے آئے ہیں،حیرت کی بات ہے کہ ایک ایک افسر کا کئی کئی بار انٹرویو کرنے کے لئے بادشاہ سلامت کا دربار لگایا جاتا رہا،حالانکہ روایات یہ رہی ہیں کہ چیف سیکرٹری اورآئی جی پولیس اپنے اپنے افسروں کی لسٹیں تیار کر کے وزیر اعلیٰ سے اس کی منظوری لے لیتے تھے اور اگر ایک دو ناموں پر وزیر اعلیٰ کو اعتراض ہوتا تھا تو وہ نام تبدیل کر دیئے جاتے تھے،مگر نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی ایک ایک افسر کا بار بار انٹرویو کر رہے ہیں، میری نظر میں نگران وزیر اعلیٰ ایک اچھے،ملنسار اور دوستانہ مزاج رکھنے والے انسان ہیں،پروٹوکول ان کے پاس سے بھی نہیں گذرا وہ عام انسانوں کی طرح رہنے اور انسانیت کی خدمت پر یقین رکھنے والے شخص ہیں مگر نجانے افسروں کو بار بار کیوں بلا رہے ہیں؟نگران وزیر اعلیٰ کو اپنا وقت ایسے انٹرویوز پر ضائع کرنے کی بجائے اس کام پر مرکوز کرنا چاہئے جس کے لئے انہیں لایا گیا ہے۔ نگران حکومت کے کرنے کے لئے بے شمار ایسے کام ہیں جن سے عوام اور صوبے کا بھلا ہو سکتا ہے،اس حکومت کا بنیادی کام آئندہ انتخابات کو صاف اور شفاف بنانے کے لئے اقدامات اٹھانا ہے اس سلسلے میں انہیں ایسے افسروں کا انتخاب کرنا ہے جن پر کسی جماعت یا حکمران سے قربت کا الزام نہ ہومگر وہ یہ کام کیسے پورا کر سکتے ہیں؟ ان کی کابینہ کے اکثر ارکان ہی غیر جانبداری کی تعریف پر پورا نہیں اترتے،ماضی کے نگران ادوار میں بہتر انتطامی کام اس لئے ہوتے تھے کہ ان میں سیاسی مداخلت نہیں ہوتی تھی،مگر جب کابینہ خود ہی نیوٹرل نہیں ہو گی تو ان پر جانبداری کا الزام بھی لگے گا، اس کے باوجود نگران حکومت نے صوبائی سیکرٹریز اور کمشنرز کی سطح پر اچھے افسران کا انتخاب کیا ہے،مگر ایک افسر کو ایک عہدے سے ہٹا کر دوسرے پر لگانے سے گورننس اور حکومتی کام پر کیا اچھا اثر پڑے گا؟
نگران حکومت کو یہ ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ انتظامی افسروں کے تبادلے کرتے وقت ریونیو دینے والے محکموں میں بار بار سیکرٹری تبدیل نہیں کئے جاتے،اسی طرح نگران سیٹ اپ میں ریونیو دینے اور اکٹھا کرنے والے،فنانس اور ایکسایز جیسے محکموں کے سیکرٹری بھی نہیں بدلے جاتے،ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ پوسٹنگ ٹرانسفر کرتے وقت بڑے محکموں میں وہی افسر سیکرٹری لگائے جاتے ہیں جو ان محکموں میں جونیئر لیول پر کام کر چکے ہوں اور محکمے کے کام اور معاملات کو سمجھتے ہوں۔
پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی،کے طور پر احمد رضا سرور کا انتخاب بہترین ہے،وہ ایک تجربہ کار،اپ رائٹ،محنتی اور مثبت کام کرنے والے افسر ہیں،انہیں پتہ ہے کہ میرٹ اور قانون اندھا ہوتا ہے، وہ نہ صرف چیف سیکرٹری کے بہترین ساتھی ثابت ہوں گے بلکہ انہیں اچھے مشورے بھی دیں گے،انہیں اس وقت پنجاب میں جہاں بھی لگایا جاتا وہ اچھے رزلٹ ہی دیں گے،میاں محمدشکیل کو ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم لگایا گیا ہے،وہ ایک اچھے افسر اور اس سے بھی اچھے شکاری ہیں ان کا نشانہ کم ہی خطا ہوتا ہے مگر ان کے پاس محکمہ داخلہ کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ پی اے ایس کے افسر جاوید اختر محمود کو سیکرٹری ہائر ایجوکیشن جیسے اہم عہدے پر لگایا گیا ہے،ان کا شمار محنتی اور رزلٹ دینے والے افسروں میں ہوتا ہے،کمشنر ساہیوال کی حیثیت سے وہ کارکردگی میں نمبر ون قرار پائے تھے انہوں نے بہت کم عرصے میں ساہیوال،پاکپتن اور اوکاڑہ کے اضلاع میں ترقیاتی کاموں کے علاوہ صحت اور تعلیم کے شعبے میں مثالی کام کیا۔اسد اللہ فیض کو محکمہ ایکسائز سے تبدیل کر کے اب محکمہ لیبر کا سیکرٹری لگایا گیا ہے،انہیں تبدیل کر کے ان کے ساتھ اور محکمے کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے،گو ان کی جگہ تعینات ہونے والے افسر مسعود مختار بھی ایک اپ رائٹ اور انتہائی محنتی افسر ہیں مگر محکمہ ایکسائز حکومت کو ریونیو فراہم کرتا ہے اور ایسے محکموں میں بار بار تبدیلیاں نہیں کرنی چاہئے،پچھلے چند ماہ میں ہی اس محکمے کا چوتھا سیکرٹری تبدیل ہو گیا ہے۔احسان بھٹہ پچھلے تھوڑے ہی عرصہ میں محکمہ سیاحت کے سیکرٹری کے طور پر ہیٹ ٹریک کر چکے ہیں،پچھلے دور میں ان جیسے کام کرنے والے افسر کو مین سٹریم سے ہٹا کر وزیر اعلیٰ معائنہ ٹیم میں لگانا زیادتی تھا مگر انہوں نے وہاں بھی جس تیزی کے ساتھ انکوئریوں کا فیصلہ کیا یہ بھی ایک نئی مثال تھا۔مریم خان کمشنر سرگودھا کی حیثیت سے بہت اچھا کام کر رہی تھیں،وہ بڑی اپ رائٹ اور محنتی خاتون افسر ہیں انہیں سیکرٹری آئی اینڈ سی لگایا گیا ہے،مگر بدلا ہی کیوں گیا ہے؟ایک دوسری محنتی خاتون افسر سلوت سعید کو کمشنر فیصل آباد لگایا گیا ہے،تھوڑا عرصہ قبل ہی انہیں سیکرٹری اطلاعات پنجاب لگایا گیا،وہ کمشنر ساہیوال بھی اچھا کام کر چکی تھیں،انہیں بھی بار بار بدلا گیا۔
نگران حکومت کے لئے دوسرا اہم کرنے کا کام آئندہ دنوں میں گندم کی خریداری کا ہوگا،یہ ان کا بہت بڑا امتحان ہوگا،صوبائی سروس سے تعلق رکھنے والے ایک شاندار افسر زمان وٹو کو سیکرٹری خوراک لگایا گیا ہے ان کے پاس کین کمشنر کا چارج بھی ہے،ماضی میں زمان وٹوکو جہاں بھی لگایا گیا انہوں نے وہاں نہ صرف گورننس کو بہتر بنایا بلکہ بہترین رزلٹس بھی دیئے،ایک طویل عرصے تک پنجاب کے کاشتکار کے ساتھ سب سے زیادہ زیادتی اور ظلم شوگر ملز مافیا کی طرف سے ہوا مگر زمان وٹو نے گنے کے کاشتکاروں کو ان کا حق دلوایا،بعد ازاں انہیں اس اچھے کام کی سزا بھی ملی مگر وہ اپنا نام کاشتکاروں کے دلوں پر لکھ گئے۔نگران حکومت کے کرنے کا ایک اور ضروری کام پرائس کنٹرول ہے جس کے لئے انہیں روزانہ کی بنیاد پر کام کرنا ہو گا،حکومت کے پاس اچھا سیکرٹری انڈسٹری سہیل اشرف کی شکل میں موجود ہے،نئے سیکرٹری زراعت واصف خورشید بھی اچھا کام کرتے ہیں،یہ دونوں سیکرٹری ڈویژن(صفحہ 4پر بقیہ نمبر1)
اور اضلاع کی انتظامیہ کو ساتھ ملا کر صوبے میں قیمتوں کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔پنجاب کے محکمہ اطلاعات کے ڈائریکٹوریٹ جنرل تعلقات عامہ میں میڈم روبینہ کو ڈی جی پی آر لگا کر محکمے کو اس کا حق دے دیا گیا ہے،وہ اس محکمے کی سب سے سینئر اور محنتی افسر ہیں ان کے پرنٹ،الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے صحافیوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں،اسی طرح وفاقی سروس کے محکمہ اطلاعات سے تعلق رکھنے والے افسر علی نواز ملک کو سیکرٹری اطلاعات پنجاب لگایا جا رہا ہے،علی نواز کا شمار اس وقت محکمہ اطلاعات پاکستان کے بہترین افسروں میں ہوتا ہے وہ ہانگ کانگ کے علاوہ پی آئی ڈی،محکمہ داخلہ،ریلوے اور کئی دوسرے شعبوں میں بہترین خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔اسی طرح پہلی بار محکمہ اوقاف کے ہی ایک افسر طاہر رضا بخاری کو سیکرٹری اوقاف لگایا گیا ہے،جو قابل تعریف ہے۔پنجاب میں کچھ عرصہ قبل ایک افسر راجہ منصور نے سیکرٹری اطلاعات اور متعدد دوسری پوسٹوں پر عمدہ کام کیا تھا،پتہ نہیں وہ کہاں ہیں،اس جیسے افسر کو کیوں ضائع کیا جا رہا ہے؟ انہیں کوئی مین سٹریم پوسٹنگ ملنی چاہیے۔
محسن گورایہ