(دوسری قسط)
میں اپنے گزشتہ کالم میں عرض کر رہا تھا”کالم کا ناغہ“ میرے لئے”گوشت کے ناغے“ سے کم نہیں ہوتا۔۔ ایک ”بٹ صاحب“سے کسی نے پوچھا ”بٹ صاحب آپ کی نظر میں مْلک کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟“ وہ بولے ”گوشت دا ناغہ“۔۔ کالم کا ناغہ میں کسی مجبوری کے تحت ہی کرتا ہوں، ایک تو جب میں بیرون مْلک ہوتا ہوں عموماًکالم نہیں لکھتا، دوسرے جب ذاتی نوعیت کی مصروفیت ہوتی ہے کالم نہیں لکھتا، پچھلے دنوں کالم کے ناغے مجھے اپنے اکلوتے بیٹے راحیل بٹ کی شادی کی مصروفیات کی وجہ سے کرنے پڑے، میری خواہش تھی اور میرے بیٹے کی خواہش بھی تھی نکاح کے بعد صرف ولیمے کی ایک تقریب ہو پر بیرون مْلک سے آئے ہوئے بے شمار عزیزوں اور دوستوں نے ہمارا بس نہیں چلنے دیا، اْن کی خواہش کے سامنے ہماری خواہش ”سرنگوں“ ہوگئی، اْن کا خیال تھا ہم دْور دراز ممالک سے اتنا خرچا وغیرہ کر کے آرہے ہیں تو شادی دْھوم دھام سے ہونی چاہئے خصوصاًوہ لالے عطا اللہ عیسی خیلوی اور نصیبو لعل جی کو سْننا چاہتے تھے، میں جب اْن کی بات نہیں مان رہا تھا وہ مجھے طرح طرح کے طعنے دے رہے تھے، کسی نے کہا”تم بچت کرنا چاہتے ہو“، کوئی بولا”اتنی دولت تم نے کہاں لے جانی ہے؟“ کسی نے فرمایا”اکلوتا بیٹا ہے سادگی سے شادی کرتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آئے گی، لوگ کیا کہیں گے؟“۔۔ اس نوعیت کے ”باتونی دباؤ“ ڈال کر میرے عزیزوں نے میرے بیٹے کی شادی اپنی مرضی سے کروا لی حالانکہ اْس بیچارے نے اپنی شادی اپنی مرضی سے نہیں ہماری مرضی سے کروائی تھی، ویسے میں نے اْسے اجازت دے رکھی تھی”وہ شادی اپنی مرضی سے بھی کر سکتا ہے“۔۔”زیر تعمیر نئے پاکستان“ میں والدین کو اپنی مرضی ٹھونسنی بھی نہیں چاہئے اس سے والدین کو زیادہ تر شرمندگی ہی اْٹھانا پڑتی ہے، عطا الحق قاسمی کا ایک جْملہ بڑا خوبصورت ہے ”ہمارے مشرقی معاشرے میں والدین لڑکے سے پوچھتے ہیں فلاں لڑکی کے ساتھ تمہاری شادی کر دیں؟“ لڑکا اگر ہاں کہہ دے اْس کی شادی اْس لڑکی کے ساتھ کر دی جاتی ہے اور اگر ناں کہہ دے پھر بھی کر دی جاتی ہے“۔۔ ویسے کسی کی بھی مرضی سے کرے بندے کو شادی کرنی ضرور چاہئے تاکہ اْسے پتہ چل سکے شادی کیوں نہیں کرنی چاہئے۔۔ میں اس حوالے سے بھی خوش قسمت ہوں میرے داماد کی طرح میری بیٹی (بہو) بھی بہت اچھی ہے، اْس کے والدین اْس سے بھی اچھے ہیں، میں اْن کا شکر گزار ہوں اْنہوں نے میری کئی گزارشات مان لیں، جب یہ رشتہ طے ہو رہا تھا میں نے اْن سے گزارش کی تھی ”جہیز میں ایک چیز بھی ہم پر حرام ہے“ اْنہوں نے اس کے جواب میں بہت جواز تراشے، بہت بہانے بنائے، کچھ چیزوں کے لئے اصرار کیا ”یہ جہیز نہیں تحائف ہیں جن کی اسلام اجازت دیتا ہے“ اللہ کا شکر ہے بالاآخر اْنہوں نے ہماری گزارشات کی لاج رکھ لی۔۔ میں چاہتا تھا”بارات“ کا بوجھ بھی ہم اْن پر نہ ڈالیں، صرف ولیمہ ہو جس میں ہم اْن کے اور اپنے تمام مہمانوں کو مدعو کر لیں، میرے سمدھی رفعت خان فرمانے لگے ”اللہ نے ہمیں بے پناہ مال و زر سے نوازا ہوا ہے، جہیز نہ دینے کی آپ کی بات ہم نے مان لی بارات والی نہیں مان سکتے“ میں نے عرض کیا”ٹھیک ہے پر بارات میں ہم صرف پچاس لوگ لائیں گے“ اْن کا اصرار تھا زیادہ سے زیادہ لوگ لائیں، پھر ڈیڑھ سو لوگوں پر اتفاق ہوگیا۔۔ ولیمے پر میں نے لگ بھگ ایک ہزار مہمانوں کو مدعو کیا تھا،”اللہ کے مہمانوں“ (سکیورٹی گارڈز و ڈرائیورز) وغیرہ کے لئے الگ ہال وقف تھا، ایسے ایسے عظیم لوگ تشریف لائے میری عزت آبرو میں اللہ نے کئی گْنا اضافہ کر دیا،”بن بلائے مہمانوں“ کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی۔۔ بے شمار لوگوں کو اندازہ تھا ولیمے میں ہر شعبے کی ممتاز اور بڑی شخصیات شریک ہوں گی وہ اْن کے ساتھ سیلفیاں اور تصویریں بنانے آئے تھے، رزق تو کوئی اپنے مقدر کا کھاتا ہے، فلیٹیز ہوٹل کے دبئی میں بیٹھے مالکان کو میری”سوشلائزیشن“ کا بخوبی اندازہ تھا، اْنہوں نے انتظامیہ کو ہدایت کر رکھی تھی ”کھانا کم نہیں ہونا چاہئے“ اللہ کا شکر ہے چار سو چونتیس اضافی مہمانوں میں شاید ہی کوئی ہوگا جسے کھانا نہ ملا ہو، ایک بن بلائے مہمان نے ہال میں موجود گورنر پنجاب جناب بلیغ الرحمان کے ساتھ اپنی چوتھی سیلفی بنائی میں نے اْس سے کہا”بھائی جاتے ہوئے اپنا ایڈریس دیتے جانا“ اْس نے وجہ پوچھی میں نے عرض کیا”تاکہ آئندہ میں آپ کو دعوت نامہ بھجوا دیا کروں“ میری اس بات پر شرمندہ ہونے کے بجائے وہ مجھے دھکا دے کر آگے بڑھا اور سامنے سے آنے والے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کے ساتھ اپنی سیلفی بنا کر دیگر مہمانوں کے ساتھ اپنی سیلفیاں بنانے کے لئے ہال میں کہیں گْم ہو گیا۔۔ بے شمار لوگ کھانا کھائے بغیر صرف”لفافہ“ دے کر چلے گئے، اپنی تیس سالہ صحافتی زندگی میں شاید ہی اتنے”لفافے“ میں نے وصول کئے ہوں گے جتنے اْس دن کئے، ہمارے دوست علامہ ناصر مدنی نے کسی مجلس میں ان لفافوں کا بڑے مزاحیہ انداز میں تذکرہ کیا، اْن کے اس وڈیو کلپ کو لاکھوں لوگ اب تک دیکھ چکے ہیں، ہال میں اْنہوں نے مجھ سے پوچھا ”کتنی سلامی ہوئی؟“ میں نے کہا ”آپ کیوں پوچھ رہے ہیں آپ نے کہیں آگے ڈاکوؤں کو اطلاع تو نہیں دینی؟“ اْنہیں نہ بتانے کا نتیجہ یہ نکلا سلامیوں سے بھرے ہوئے تینوں تھیلے بخیر و عافیت گھر پہنچ گئے اور پھر وہاں سے اللہ کی راہ میں بھی پہنچ گئے۔۔ ویسے میں اکثر سوچتا ہوں جہیز کی طرح سلامیاں بھی ہمیں نہیں لینی چاہئیں، اس حوالے سے ایک روایت ہمارے دْنیا نیوز کے سربراہ میاں عامر محمود صاحب نے قائم کی تھی، اْنہوں نے اپنے بیٹے کی شادی کے دعوت نامے پر ہی لکھوا دیا تھا ”سلامی و تحائف وغیرہ نہیں لئے جائیں گے“۔۔ میرے دو بچے ہیں دونوں کی شادیوں پر تھوک کے حساب سے سلامیاں وصول کرنے کے بعد اب میں بھی سنجیدگی سے یہ سوچ رہا ہوں تیسرا کوئی بچہ میرے ہاں پیدا ہوا اْس کی شادی کے دعوت نامے پر میں بھی لکھوا دْوں گا”سلامیاں نہیں لی جائیں گی“۔۔ شادی کی جو تقریبات گھر میں منعقد ہوئیں اْن میں ون ڈش کی پابندی ہم نے اس لئے نہیں کی کہ مہمانوں کی جی بھر کر تواضع کرنا ایک انتہائی اسلامی اور”غیر عمرانی“ عمل ہے، مہمانوں کی تواضع نہ کرنا صرف ہمارے خان صاحب کو سجتا ہے، البتہ ولیمے پر نہ صرف ون ڈش بلکہ وقت کی پوری پابندی بھی قانون کے مطابق ہم نے کی، ہوٹل کی انتظامیہ کو یہ موقع فراہم نہیں کیا وہ لائٹیں بند کر کے ہمیں یہ پیغام دیں وقت ختم ہوگیا ہے، ون ڈش اور وقت کی پابندی ہم نے نہ کرنی ہوتی ہم ولیمہ کسی”فارم ہاؤس“ پر کرتے، ویسے جتنے اعلیٰ سول، فوجی، عدالتی و پولیس افسران میرے بیٹے کے ولیمے میں موجود تھے ہم ون ڈش اور وقت کی پابندی نہ بھی کرتے ہمیں کس نے پوچھنا تھا؟ اور اعلیٰ افسران اگر نہ بھی ہوتے ون ڈش اور وقت کی پابندی کے قانون کی خلاف ورزی زیادہ سے زیادہ ہمیں بیس پچیس ہزار میں پڑنی تھی، پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو دینے کے لئے اتنی رقم آج کل شادی کے اخراجات میں پہلے سے شامل کر لی جاتی ہے۔۔(جاری ہے)