شاعر،صحافی،ناول نگار ساجد عمر گل جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ دل نہیں مانتا ۔ہاتھ لکھتے ہوئے کپکپا رہے ہیں ساتھ نہیں دے رہے ۔لیکن کیا کروں کیسے یقین نہ کروں خود اسے سفر آخرت پر روانہ کر کے آیا ہوں ۔ساجد گل کے سفر آخرت میں ہر دوست آبدیدہ تھا ،اس کے بچھڑنے کا غم سنبھالے نہیں سنبھل رہا تھا آہیں تھیں ،سسکیاں تھیں ۔یہ 1993 کی بات ہے خبریں ایڈیٹوریل سیکشن میں ایک نوجوان کو بھیجا ۔ بتایا گیا کہ اس کی اردو اور انگلش دونوں کمال ہیں ۔اسے ارد شیر کائووس جی کا مضمون دیا جس کا ترجمہ کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی ۔کچھ ہی دیر بعد اس نے کمال مہارت سے ترجمہ کر کے ثابت کر دیا کہ اس کی اردو بھی اچھی ہے اور انگلش بھی ۔پھر ہماری دوستی ہو گئی ساجد جو چاہتا تھا غالباً وہ نہیں کر پا رہا تھا انٹلکچوئل تھا ہی کچھ عرصہ بعد اس نے خبریں چھوڑ دیا اس کے بعد اس سے ملاقات روزنامہ اساس و روزنامہ لشکر میں ہوئی ۔خبریں اورلشکرکے آفس پاس پاس ہی تھے اس لئے دوبارہ روزانہ ملاقات ہونے لگی خوب گپیں مارتے ۔تنویر عباس نقوی کومل کر تنگ کرنا معمول تھا بعد میں اکٹھے چائے پیتے۔لشکر سے ساجد گل نے دیار غیر کا سفر باندھا اور آئر لینڈ پہنچ گئے۔اس دورا ن سے تمام رابطے منقطع ہو گئے وہ بھی اور ہم بھی رزق روزگار کے مسائل سے ہمکنار رہے ۔ کافی سالوں بعد غالباً 2004 میںآئرلینڈ کا ایک میگزین پاکستان ٹائم بناتا تھاجو پاکستان سے ہی پرنٹ ہو کر آئرلینڈ جاتا تھا جس کے چیف ایڈیٹر زاہد حسین صاحب تھے جو ان دنوں آئر لینڈ میںہی مقیم تھے جن سے اکثر فون پر بات ہوتی رہتی تھی ایک دن ان کا فون آیا تو کہنے لگے آپ کے لئے ایک سرپرائز ہے ۔جب میں نے اصرار کیا تو انھوں نے کہا کہ بات کرو اور فون کسی دوسرے شخص کو پکڑا دیا ۔وہ دوسرا شخص ساجد گل تھا ہم دونوں کافی دیر بعد ایک دوسرے سے بات کرنے پر بہت خوش ہوئے ۔اس کے بعد ہمارا رابطہ بحال ہو گیا ۔ساجد گل اب جب پاکستان آتے مل کر جاتے خوب گپیں لگتیں ۔ڈاکٹر سعید الٰہی اکثر ان کے ساتھ ہوتے ۔کوئی کام ہو وہ کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیتے تھے۔آخر وہ لاہور مستقل شفٹ ہو گئے ۔ایک موقع پر میں نے پوچھا ساجد تمھیں صحافیوں کو ملنے والا پلاٹ کیوں نہیں ملا کہنے لگا کہ شاید میری ممبرشپ بحال نہ تھی ۔میں نے کہا کہ چلو صدر پریس کلب کے پاس چلتے ہیں کہنے لگا دفعہ کرو یار شاید میرا حق ہی نہیں بنتا تھا اللہ نے بہت کچھ دے دیا ہے ۔چند روز بعد اس نے اپنے آبائی مکان کی مرمت کروائی اور پھر دوستوں کی دعوت کی ۔اس دوران ساجد گل ایک اخبار روزنامہ ’’امسال ‘‘کے ایڈیٹر بھی بنے اور اخبار کو چلا کے دکھایا وہ اخبار بوجوہ بند ہو گیا لیکن اس میں ساجد گل کی قابلیت نظر آ گئی دن رات وہ اخبار کے دفتر میں ہی نظر آتے اور ہمیں بھی طلب کرکے بہت خوش ہوتے تھے۔جب اخبار چھوڑنا پڑا تو بہت رنجیدہ تھے ۔
مولانا مودودی کے صاحبزادے حیدر فاروق مودودی سے ساجد گل بہت محبت کرتے تھے اور ان کی علمی قابلیت سے فائدہ اٹھاتے تھے ۔دونوں کی علمی گفتگو سے سننے والے بھی استفادہ کرتے تھے ۔ابھی چند روز قبل کی بات ہے لاہور پریس کلب کے انتخابات کے موقع پر ساجد گل سے شاید آخری ملاقات ہونا تھی اس لئے لمبی ملاقات ہو گئی ۔آصف عفان،عامر وقاص ،ساجد گل اور میں اکٹھے پریس کلب سے نکلے کہ کچھ کھاتے ہیں یا سوپ وغیرہ پیتے ہیں ۔باہر نکلے تو پروگرام بدل گیا ہم گوالمنڈی سے ہریسہ کھانے چلے گئے اس دوران خوب گپ شپ ہوئی پرانی یادیں پرانی باتیں ہوتی رہیں ،شہزاد فاروقی،مسعود ملک مرحوم اور پی آئی او سہیل احمد خان کا ذکر ہوتا رہا ۔ اے پی پی کی باتیں سناتا رہا ۔خوب جی بھر کے کھایا اس کے بعد موصوف نے کافی پینے کی خواہش کا اظہار کیا اور ہمیں قریب ہی اپنے ایک دوست کی کافی شاپ میں لے گئے جہاں ہم کافی دیر گپیں مارنے کے بعد پریس کلب واپس پہنچے تو زاہد چوہدری سمیت کچھ امیدواروں نے شکوہ کیا کہ یہ ہماری کمپین ہو رہی تھی کیا ۔لیکن کسی کو کیا علم تھا کہ کمپین کے بجائے میری ساجد عمر گل سے آخری ملاقات ہو رہی تھی ۔پیر کی شب مجھے نوشین نقوی کا فون آیا جس نے ساجد گل کے بارے میں کوئی خبر دیکھی اس نے مجھ سے کنفرم کیا تو میں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور نوشین کو کہا کہ ابھی بتاتا ہوں آصف عفان کو فون کیا ،شہزاد فاروقی کو فون کیا کسی کو کچھ علم نہ تھا لیکن سب پریشان ہو گئے پھر میں نے ساجد گل کا فون نمبر ملایا تو وہاں سے خبر کی تصدیق ہو گئی ۔رات کو جب میں ساجد گل کے گھر پہنچا تو شاید ہی کوئی ایسا دوست ہو جو وہاں نہ پہنچا ہو ۔اور جنازے پر تو وہ بھی موجود تھے جنھیں دیر سے اطلاع ملی وہاں علم ہوا کہ ساجد گل واقعی محبتیں تقسیم کرتا تھا ہر آنکھ اشکبار تھی کیوں نہ ہوتی وہ صرف میرا دوست ہی نہیں تھا وہ صحافی کمیونٹی کا دوست تھا وہ ڈاکٹر کمیونٹی کا دوست تھا ۔وہ چلا تو گیا لیکن ہمارے دلوں میں اپنی یادوں کے انمٹ نقوش چھوڑ گیا ۔ اللہ پاک ساجد عمرگل کی قبر کی منزلیں آسان فرمائے رب کعبہ انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے انکے اہل خانہ صبرکو جمیل عطا فرمائے۔۔۔۔۔۔ آمین