سینٹ میں اپوزیشن کی واضح اکثریت ہونے کے باوجود پی ٹی آئی سٹیٹ بینک آف پاکستان کو آئی ایم ایف کے حوالے کرنے میں کامیاب ہوگئی ،ایسی ہی کامیابی انہیں قومی اسمبلی میں منی بجٹ پاس کراتے وقت ملی تھی ،منی بجٹ کے باعث بجلی ،پیٹرول ،ڈیزل ،ادویات ودیگر ضروریات زندگی کی قیمتوںمیں اضافے کا رجحان آئے روز جاری ہے ،گزشتہ روز گھی لینے گیا تو دکاندار کہنے لگا کہ ہم نے ایسا بدترین دور اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ،روزانہ کی بنیاد پہ آٹا ،چینی ،گھی ،پتی ،دالوں ،دودھ ،دہی کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے ،جس کے باعث ایک طرف عام صارف کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے جبکہ ہمارا کاروبار بھی شدید متاثر ہورہا ہے ،خریدار ناپید ہیں ،ٹیکسوں کی بھرمار ہے ، آئے روز ایف بی آر ،کنٹونمنٹ بورڈ ،ایکسائز محکمہ ودیگر اداروں کی جانب سے نوٹسز نے ہمیں ذہنی اذیت میںمبتلا کررکھا ہے ،معلوم ایسے ہوتاہے کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی شے موجود ہی نہیں ہے ،بات ہورہی تھی حکومت اور اپوزیشن کے گھنائونے کردار اور ملی بھگت کی، حکومت نے جو بل بھی پاس کرانا ہو جیسی بھی قرار دار اسمبلی اور سینٹ میں منظور کرانی ہو وہ کرا لیتی ہے، اپوزیشن میں موجود کالی بھیڑیں ،منافقت کا کردار ادا کرتے ہوئے یا تو غائب ہوجاتے ہیں یا بیماری کا بہانا بنا لیتے ہیں یا پھر اپنا ووٹ حکومت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ،چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت کو توسیع دینے میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک ہی پیج پہ تھے ، معلوم ایسے ہوتاہے کہ سٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کرنے میں بھی دونوں کا گٹھ جوڑ تھا ،دونوں کے گٹھ جوڑ نے ثابت کردیا ہے کہ ہم نے بیرونی قوتوں ،مالیاتی اداروں کے مفادات کی خاطر اس اہم ادارے کا کنٹرول غیروں کے حوالے کردیا ہے ،آئی ایم ایف کے پرچم کے سائے تلے اپوزیشن حکومت ایک ہیں ،کیونکہ دونوں نے عوام کو صرف طفل تسلی دینے کا سلسلہ شروع گزشتہ کئی سال سے شروع کررکھا ہے ،مہنگائی ،بدامنی ،کرپشن ،بے روزگاری ،اقربا پروری کا سیلاب عوام کو بہا کر لے جارہا ہے لیکن اس کے آگے بند باندھنے کو کوئی تیار نہیں ہے ،ہاں اپنی تنخواہوں ،مراعات میں آئے روز قومی وصوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے ارکان اضافہ کرتے رہتے ہیں جبکہ عوام کو دی گئی تمام سبسڈیز حکومت ختم کرتی جارہی ہے ،اب یوٹیلیٹی سٹورز پر بھی رعایتی پیکیجز کا خاتمہ کردیا گیاہے ،بجلی پہ سبسڈی کا
پہلے ہی خاتمہ کردیاگیا تھا ،حکومت ،اپوزیشن کے گھنائونے کردار کا پردہ اب مکمل طور پر چاک ہوگیا ہے ،اپوزیشن کی مثال چور مچائے شور والی ہے ،اس نے کوئی ایک بھی ٹھوس کارروائی، احتجاجی تحریک ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف نہیں کی ہے ،ہا ں حکومت کو ہٹانے کی بات کرتے ہیں ،دھرنا دیتے ہیں ،روڈ بلاک کرتے ہیں لیکن مہنگائی ،بے روزگاری کے اصل ایشوز کے خاتمے کے لئے وہ اور حکومت دونوں مخلص نہیں ہیں ،اگر مخلص ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنی شاہانہ طرز زندگی کو ختم کریں ،اپنی مراعات، تنخواہوں کو واپس قومی خزانے کے حوالے کریں ،سالانہ اربوں روپوں کا جو خرچ ان پر آتاہے ،اس کے خاتمہ کا اعلان کریں ،تمام ممبران ٹیکس باقاعدگی سے ادا کریں ،لیکن وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے بلکہ افسر شاہی اور ججوں کی تنخواہوں میں بھی کمی کی جائے ،ملک اس وقت کرائسس کی حالت میں ہے، مبینہ طور پر اس کے دیوالیہ ہونے کا سابق چیئر مین ایف بی آر کہہ چکے ہیں، ایسے حالات میں تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کو قربانی کا بکرا بنایا جائے ،صرف عوام ہی کیوں،مجھے ایک بینک کا افسر بتا رہا تھا کہ جب ہم نے ججوں کی ماہانہ تنخواہیں ادا کرنا ہوتی ہیں تواس دن ہمارا خزانہ خالی ہوجاتاہے ،ہم کوئی اور دوسری ادائیگی اکائونٹ ہولڈر ز کو نہیں کرپاتے ،یہی حال ہمارے عوامی نمائندوں اور ان کے ایوانوں کا ہے ،کوئی ڈھنگ کا کام اسمبلیوں میں ہوتانہیں ہے ،صرف گالم گلوچ اور ایک دوسرے پر الزامات لگانا ،عوام کے مسائل سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے ،ہمارے تمام تر مسائل پر یشانیوں میں انتظامیہ ،عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار نہایت گھنائونا ہے ،وہ بھی صرف زبانی جمع خرچ کے ذریعے اس کرپٹ نظام کا حصہ بنے ہوئے ہیں ،دوران ملازمت ہی اکثر بڑے عہدوں پر فائز افسران دوہری شہریت حاصل کرلیتے ہیں ،ایک اندازے کے مطابق تقریباًبائیس ہزار افسران نے دوہری شہریت حاصل کررکھی ہے ،اوپر سے سونے پہ سہاگہ صوبہ خیبر پختونخوا جو بلوچستان کے بعد پسماندہ ترین صوبہ ہے جہاں پانی سے بجلی اور قدرتی گیس پیدا ہوتی ہے لیکن انہیں ان دونوں ضروریات زندگی سے محروم کردیاگیا ہے لیکن اس کے ممبران صوبائی اسمبلی نے ایکٹ 1975 میں ترمیمی بل 2021 کے ذریعے قومی خزانے سے یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی کا حق حاصل کرلیاہے جبکہ عوام اپنی تمام تنخواہ بجلی وگیس کے بلوں کی ادائیگی میں صرف کر رہے ہیں، اب تو روزگار کیلئے درخواست دینا بھی محال ہوگیا ہے ،انٹری ٹیسٹ کی فیس جو پہلے ن لیگ کے دورمیں پندرہ سو روپے تھی کو بڑھا کر چھ ہزار تیس روپے کردیاگیا ہے،بجلی کے بلوں کے نرخ آئے روز بڑھائے جارہے ہیں ،مساجد تک سے ٹی وی لائسنس کی فیس بجلی کے بلوں میں وصول کی جا رہی ہے، روپے کی گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے، بنگلہ دیش کا ایک ٹکا اب پاکستانی 2.1 روپے کے برابر ہوگیا ہے گویا اب ہم دو ٹکے کہ بھی نہ رہے ، سابقہ حکومت عوام کو گیس ،پیٹرول ،میٹروبس ،بجلی ،یوٹیلیٹی سٹورز کی اشیاء پر سبسڈی دے کر عوام کو ریلیف دے رہی تھی لیکن اب تمام مراعات ،سبسڈیز ختم کرکے دعویٰ عوامی حکومت کا کیا جاتاہے ،وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ میں نے نوے دنوں ہی میں کرپشن کو ختم کردیا تھا ،جو صرف لگتا ایسا ہے کہ وہ مکمل طور پر درباریوں ،کاسہ لیسوں ،خوشامد یوں کے نرغے میں ہیں،جو انہیں اندھیرے میں رکھے ہوئے ہیں ،ان شاید آئی ایم ایف کی موجودہ رپورٹ دیکھنے کو ملی جس میں پاکستان کرپشن انڈکس میں 144 ویں نمبر پر چلا گیا ہے ،اس کرپشن ،مہنگائی ،ملکی اداروں کو آئی ایم ایف کے حوالے کرنے ،بے روزگاری میں حکومت ،اپوزیشن بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ سب ذمہ دار ہیں ۔