محمد محسن کموکہ ہماری ریاست کے تخت کے دوسرے پائے یعنی عدلیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے احباب نے نشستِ آگہی کے پلیٹ فارم سے راقم کے ساتھ گفتگو کی ایک محفل منعقد کی، محسن نقیبِ محفل تھے، انتہائی خوبصورت تعارفی گفتگو کرتے رہے۔ مجھے یہ موصوف ایک دم اچھے لگے، شاید میری صفت کر رہے تھے، میں سمجھا تعارف کے پردے میں اپنی تعریف سن کر میرا نفس اس کا گرویدہ ہو چلا ہے، لیکن کچھ عرصے بعد انکشاف ہوا کہ محسن لکھتے بھی ہیں، نہ صرف لکھتے ہیں بلکہ خوب لکھتے ہیں۔ یہ اپنے منصب میں یقیناً منصف بھی ہوں گے اورعادل بھی، اس فقیر کی دلی تمنا ہے کہ یہ محسنین میں بھی شامل ہوں۔ ان کی تحریریں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انتظامیہ کی طرح شاید ہماری عدلیہ کے بطن سے بھی کوئی مختار مسعود پیدا ہو رہا ہے۔ واصفی فکر کے قائل ہی نہیں اس کے گھائل بھی ہیں۔ جب مرشدی واصف علی واصف کا ذکر کرتے ہیں تو فرطِ محبت میں مرشدِ خیال لکھتے ہیں۔ مجھے یہ ترکیب بہت پسند ہے، فی الواقع ایسا ہی ہے، لاکھوں لوگوں کے خیال کا تسویہ اور تزکیہ واصفی فکر کے ذمے ہے۔ یہ فکر اور صاحبِ فکر اپنا فریضہ روز افزوں بہتر سے بہتر طریق پر نبھائے چلے جا رہے ہیں۔
پچھلے دنوں ملاقات کے لیے آئے تو ایسے معلوم ہوا جیسے درمیان میں برسوں کا تعطل کبھی تھا ہی نہیں۔ "دوستوں کے درمیان وجہ دوستی ہے تْو "… یہ "تو" دریافت ہو جائے تو تعلق ہمہ حال ہو جاتا ہے، ظاہری ملاقاتوں اور رکھ رکھاؤ کا محتاج نہیں رہتا۔ تعلق سے تعلق جنم لیتا ہے۔ جب تعلق پیدا ہو جائے تو اپنے ارد گرد ہر چیز میں معنویت پیدا کر دیتا ہے۔ انسان انسان سے اور پھر اپنے رب سے تعلق توڑ کر کائنات دریافت کرنے کے "وائیج" اور "ڈسکوری" ایسے مشن پر چل نکلا ہے، کائنات کی معنویت کے بارے میں کیا لکھے گا؟؟
جو تعلق کی کشش سے نکل گیا وہ بے نام خلاؤں میں گم ہو گیا۔ہمارا جغرافیہ اور ہماری تاریخ تعلق کے سبب قابلِ توجہ قرار پاتے ہیں۔ جس کا جس سے تعلق ہوتا ہے وہ اپنے تعلق کی داستان رقم کرتا ہے، یوں تاریخ رقم ہوتی ہے۔ ہم ہنومان اور کرشن مہاراج کی تاریخ نہیں پڑھتے، اگر پڑھ بھی لیں تو یہ ہماری یادداشت میں ٹھہرتی ہے، یاد میں نہیں ٹھہر پاتی۔ امریکہ کی تاریخ اور برازیل کا جغرافیہ ہماری توجہ کی طنابیں نہیں کھینچتا۔ وجہ صرف تعلق کا عدم ہونا ہے۔ گویا تعلق عدم ہو جائے تو سارا علم کالعدم ہو جاتا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصف کا کہنا ہے کہ علم تعلق کا نام ہے۔ دین کا علم دین دینے
والے کی ذات سے تعلق کے بغیر ممکن نہیں، اگر ایسا ہے تو سمجھ لیں کہ فساد فی الارض ہے۔ حکیم الامت نے دینِ ملّا فی سبیل اللہ فساد مہمل نہیں کہا۔
یہ دنیا اسماء و اسباب کی دنیا ہے۔ تعلق کے سبب نام رکھے جاتے ہیں۔ افراد کے نام ہوں یا مقامات کے نام سب تعلق اور نسبت کی داستانیں ہیں۔ مقامِ ابراہیم جد الانبیاء حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ کے حوالے سے ہے۔ صفا اور مروہ حضرت بی بی حاجرہؓ کی کٹھن سعی کے نام سے شعائر اللہ قرار پائے، آج بھی صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے کو سعی کا نام دیا جاتا ہے۔ چاہِ زمزم حضرت اسماعیلؑ کی معصوم ایڑیوں کی رگڑ سے موسوم ہے۔ گو اسے اْمّ اسماعیل نے زم زم (ٹھہرجا، ٹھہرجا) کہا لیکن یہ زمزم محبت کہاں ٹھہرتا ہے۔ دین سے اگر شخصیات کے ساتھ نسبتوں کا حوالہ نکال دیا جائے تو یہ عمل اور لائحہ عمل نہیں بلکہ خالی فلسفہ قرار پائے گا۔ عام الفیل اور عالم الحزن اگر سالوں کے نام ہیں تو ان سالوں کے ساتھ کچھ افراد اور واقعات کی نسبت رقم ہیں۔ گرانڈیل ہاتھیوں کے ساتھ مادی طاقت کے زعم میں بدمست ابرھہ مکہ پر چڑھائی کرتا ہے اور اس کے جواب میں اس گھر کا مالک جس شائستہ طریق پر جواب دیتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، قرآن میں اس واقعے کا بیان ہو گیا، ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا گیا۔ عام الحزن غم کا سال ہے، جب رسولِ کریمؐ کی دو عزیز ترین ہستیاں حضرت خدیجتہ الکبریٰؓ اور جنابِ ابی طالب اس دنیا سے رخصت ہو گئیں تو اس سال کو عامْ الحزن کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔
نسبتوں کا تعلق جاری وساری ہے۔ آج بھی اولیاء اللہ و سلف صآلحین سے منسوب اشیاء ، واقعات اور تواریخ محفوظ کی جاتی ہیں، متبرک قرار دی جاتی ہیں۔ ان سے منسوب اشیاء ، تواریخ اور واقعات کے ذکر سے انسان اک گونہ تسکین پاتا ہے، قلبی وابستگی محسوس کرتا ہے اور اپنے اندر ایک روحانی قوت کشید کرتا ہے۔ یاد اور ذکر انسان کو زندہ رکھتے ہیں، وگرنہ یہ پیکرِ خاکی کیا ہے۔ فقط مٹی کا ایک ڈھیر! مٹی پر مٹی چلتی ہے اور پھر مٹی میں مل کر مٹی ہو جاتی ہے ، لیکن وہ مٹی جو کسی کی یاد اور ذکر کی حدت میں پک جاتی ہے، وہ دوبارہ مٹی میں نہیں ملتی، اپنی ہیت اور وجود برقرار رکھتی ہے۔ یہ نسبتوں کی داستاں ہے کہ مرشدِ خیال نے حضرت علی ہجویریؒ کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے زبان حال سے کہا
داتا کے بھی روضے پہ ہیں انوارِ مدینہ
تاریخ پیدائش، تاریخِ وصآل اور تاریخِ ملاقات ۔ سب اہم ہیں۔ جب بندہ اہم ہو جائے تو اس سے نسبت رکھنے والی سب چیزیں اہم ہو جاتی ہیں۔ چند برس قبل انہی کالموں میں ذکر ہوا کہ مرشدی حضرت واصف علی واصف سے اس طالبعلم کی پہلی ملاقات 13 جنوری 1985ء میں ہوئی۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں ۔چند قارئین نے یہ تاریخ نوٹ کر رکھی ہے، وہ ہر سال 13 جنوری کو میری یومِ پیدائش کی طرح مجھے پیغاماتِ تہنیت بھیجتے ہیں۔ ایسی نابغہ روزگار ہستی سے ملاقات بپا ہونا واقعی شعور کا ایک نیا جنم قرار پاتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب مجھے آپ نے اپنی محفلِ گفتگو میں شامل کیا تو اگلے دن حاضرِ خدمت ہوکر میں نے بے خیالی سے اپنے تاثرات یوں بیان کیے سر! مجھے لگتا ہے میرا شعور ایک نئے orbit میں داخل ہو گیا ہے۔ 15 جنوری آپ کا یومِ پیدائش ہے اور 18 جنوری یومِ وصال! چار روزہ زندگی کو بھی آپ نے گویا سہ روزہ کر دیا۔ 1929ء سے 1993ء کے مختصر عرصے میں فقط چونسٹھ برس میں اتنا ضخیم کام کر گئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ شاعری ہے تو وہ اپنے کمال درجے پر ، پنجابی اور اردو دونوں زبانوں میں، نثر ہے تو ایسی ندرت کی حامل کہ ایک اسلوب قرار پائی۔ آپ پر لکھے گئے مقالہ جات میں "واصفی نثری اسلوب" ایک مستقل موضوع ہے، گفتگو ایسی بے مثال کہ اب تک گویا فرما رہے ہیں۔ چونتیس مجموعے گفتگو کے شائع ہو چکے ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے، فکر ایسی لاجواب کہ واصفی فکر کے عنوان سے اہلِ فکر کے لیے لائحہ عمل ہے۔ اور پھر ندرتِ خیال ایسی کہ واصف خیال ایک الگ موضوع بن چکا ہے۔
مرشدی حضرت واصف علی واصف فرماتے ہیں کہ حال کی اصلاح سے پہلے خیال کی اصلاح ضروری ہوتی ہے، اور یہ کہ جو جس کا خیال ہے وہی اس کا حال ہے۔ مرشدِ خیال کا ایک ایک فقرہ فقیر بنانے کے لیے کافی ہے۔ خیال اللہ والا ہو جائے تو بندہ اللہ والا ہے، خیال کا رخ وجودی تقاضوں کی طرف جھک جائے تو یہ انسان جو احسن الخالقین کی احسنِ تقویم تخلیق ہے۔ اسفل سافلین قرار پاتا ہے۔ خیال وجود سے ماورا ہو جائے تو وجود کا تزکیہ از خود ہو جاتا ہے۔ تزکیہ ، تلاوت ، علم الکتاب اور حکمت۔ یہ چاروں شعبے پیکرِ عنصری کے چار عناصر کی طرح ہمارے پیکرِ خیال کی ترکیب ہیں۔ یہاں ہر شعبہ دوسرے سے ایک خاص نسبت اور تعلق رکھتا ہے، کسی ایک طرف بھی منسلک ہو جائیں تو باقی تینوں شعبوں کی طرف منسوب ہو جائیں گے۔ اس خیال کا انتساب صاحبِ خیال کے نام ہے۔ مرشدِ خیال کے نام!!مدینہ و نجف سے نام و نسبت رکھنے والا پیکرِ عجز و انکسار کہتا ہے:
واصفِ بے نام و نسبت کی نہ پوچھ
نامِ مولیٰ مل گیا اس کو قلم