طاقت کے محور حلقوں اور ان کے حواریوں کے اقدامات سے یوں ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ جس رفتار سے کام کر رہے ہیں، قائداعظم ؒ کے پاکستان کو زمین بوس کر کے نیا پاکستان بنا کرہی دم لیں گے اور اس پاکستان میں جمہوریت نام کی کوئی جڑی بوٹی بھی نہیں پائی جائے گی وہ جمہوریت سے پاک ہو گا کیونکہ ان کے ہاں سب رہنماؤں اور مسائل جمہوریت کے باعث جنم لیتے ہیں کیونکہ جمہوریت ہر کسی کو جوابدہ بناتی ہے جس کی وجہ سے رعب اور شان و شوکت ہر وقت خطرے میں کھڑی رہتی ہے۔ پارلیمانی نظام میں اس کے علاوہ بھی برائیاں پائی جاتی ہیں مثال کے طور پر پارلیمانی نظام میں عوام کے مختلف نمائندے اور عوام خود کو طاقت کا سرچشمہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں۔ عسکری اداروں اور عدالتوں پر بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہیں، جس کے باعث دونوں کو دفاعی پوزیشن پر آنا پڑتا ہے اوریہ بات دونوں کو کسی صورت برداشت نہیں ہے۔ بہرحال ضرورت اب اس امر کی ہے کہ ان قوتوں کو کسی صورت بھی کھلی چھٹی دینے کے بجائے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا جائے اور مزاحمت کے تسلسل کو کمزور نہ پڑنے دیا جائے جینے کے لیے مصمم عزم اور امر ہونے کے لیے قربانی لازم ہوتی ہے اور یہ دونوں اصول ہی ملک و قوم اور نئی نسل کے تابناک مستقبل کے ضامن ہوتے ہیں۔ ریاست مدینہ اور تھی پاکستان بنانے کے خواہاں حلقوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر پارلیمانی نام سے بہتر اگر صدارتی نظام ہوتا تو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ اول روز ہی پارلیمانی نظام پر صدارتی نظام کو ترجیح دیتے۔ اب یہ بات الگ ہے کہ اپنے مقاصد اور مفادات کے لیے کبھی نیا پاکستان اور کبھی ریاست مدینہ کے نعروں کے بل بوتے پر اقتدار کی راہداریوں پر مکمل اپنا اختیار چاہتے ہیں پسند اور ناپسند کی بنیاد پر کٹھ پتلی حکمرانوں کا ریوڑ بنانے کے روادار ہیں۔
یہ کہنا صد فیصد غلط اور بے بنیاد ہے کہ 74 سال سیاسی نظام کی تلاش میں گزر گئے اور ملک کو ایک بھی منصفانہ، مساویانہ شفاف جمہوری سیاسی و سماجی نظام نہیں ملا۔ اصل بات تویہ ہے کہ سیاسی اداروں کو ان کی منشا کے مطابق کام ہی کرنے نہیں دیا یا۔ تعجب ہوتا ہے کہ جب آج اکیسویں صدی میں ایک وزیراعظم کی زبان سے یہ سننے میں آتا ہے کہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پرفلاحی ریاست بنانے کا آغاز کر دیا ہے اگر آج یہ آغاز کیا گیا ہے تو پھر 1977ء میں اقتدار پر قابض ہونے والے مرد مومن مرد حق نے بھی ریاست مدینہ بنائی تھی وہ کہاں چلی گئی ۔ اسلام کے نام پر دکانداری کرنے والے کل بھی شرمندہ ہوئے تھے اور ان شاء اللہ آج بھی ہوں گے۔ آج کے سائنسی دور میں ہم آج بھی اس چورن کو بیچ کر ریاست کا انتظام و انصرام چلانا چاہتے ہیں۔ دراصل یہی باتیں ہمیں جہالت سے دور لے جاتی ہیں۔ خدا کے لیے اس سلسلے کو ختم کر دیا جائے تو سب کے لیے بہتر ہے۔ عوام یہ بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ نت نئے تجربات کرنے والے طاقت کے محور پر پانچ دس سال بعد صدارتی نظام کے نفاذ کے لیے متحرک ہو جاتے ہیں اور دیکھا جائے تو وہ ماضی میں صدارتی نظام رائج کرنے میںکامیاب بھی رہے ہاں مگر ان کے اس عمل سے ملک وقوم کی جو تباہی ہوئی ، اس کی ہم آج تک تلافی نہیں کر سکے۔ اس نظام کے سابق بانیان جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف تھے اور اب ماشاء اللہ عمران نیازی صاحب تاریخ کے سیاہ اوراق میں اپنی تاریخ رقم کرنے کے لیے بضد نظر آرہے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے کیونکہ وہ اس صف میں شامل ہونے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کرنے کی صف بندی کرتے نظر آرہے ہیں اس حوالے سے منجھے ہوئے سیاستدان چودھری شجاعت حسین کا کہنا درست ہے کہ کسی کو بھی اس کے مشیر ڈبوتے ہیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے کوزے کو دریا میں بند کر دیا عقلمندوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے ان سے سبق سیکھاجاتا ہے مگر بدقسمتی سے یہاں سارا کچھ الٹ ہوتا ہے۔ ہم غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے غلطی پر غلطیاں کرتے آرہے ہیں یہاں تک کہ سقوط ڈھاکہ سے بھی ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ صدارتی نظام کو جتنا عوام اور اس ملک نے بھگتا ہے شاید طاقتور حلقے اب بھی ماضی کی غلطیوں پر شرمندہ نہیںہوئے۔ سچ تو یہ ہے کہ عوام ابھی تک صدارتی نظام کے اثرات بھگت رہے ہیں۔ صدارتی نظام سے ملک و قوم میں ذرا بھر بھی بہتری آئی ہوتی تو صدارتی نظام کے بعد پارلیمانی نظام کی کبھی کوئی جگہ نہ بن پاتی۔ صدارتی نظام کے حق میں حکومتی وزراء کی طرف سے یہ کہنا کہ پاکستان میں ابھی تک حقیقی صدارتی نظام نافذ ہی نہیں ہوا۔ اور کیاکہا جائے دراصل یہ بیمار اور غلامانہ سوچ کی عکاسی ہے۔اقتدارکے رسیا نسل در نسل غلامی کی سوچ میں نشو ونما پانے والوں کے علاوہ ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ قبل ازیں ماضی میں صدارتی نظام کی کمانڈ کرنے والوں نے جو کارنامے سر انجام دیئے ان کی بدولت ملک و قوم تباہی کے اس آخری دہانے پر کھڑی ہے جس کے سرکنے سے کسی بھی وقت سب کچھ زمین بوس ہو سکتا ہے۔ سچ کو تسلیم کرنے کی عادت اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ قائداعظم کے پاکستان میں سردار عبدالرب نشتر نے پہلے صدر ماشاء اللہ ایوب خان کی فائل پر یہ نوٹ لکھ کر بانی پاکستان کو دی تھی کہ یہ فوجی جوان ایوب خان مہاجرین کی بحالی اور ریلیف کے بجائے سیاسی معاملات میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے جس پر قائداعظمؒ نے اپنی قلم سے اس کی فائل پر لکھا تھا کہ اس کو مشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے اور یہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا اور اس مدت کے دوران بیج بھی نہیں لگائے گا۔ وقت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ وہی ایوب خان نہ صرف پاکستان کا صدربنا بلکہ بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی الیکشن میں نادیدہ قوتوںکے ذریعے شکست دے کر قائداعظمؒ کے پاکستان میں نقب زنی کا آغاز کر دیا گیا۔