اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ڈینئیل پرل قتل کیس کے ملزم عمر شیخ کو ڈیتھ سیل سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے اس کی رہائش کے لیے کسی ریسٹ ہاؤس میں انتظام کی ہدایت کر دی ہے۔ عدالت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ملزم کو فیملی کے ساتھ آرام دہ رہائش اور ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی جائے۔ دو دن میں تمام ضروری انتظامات مکمل کیے جائیں، دو دن تک احمد عمر شیخ کو جیل کے اندر آرام دہ ماحول میں رکھا جائے۔
تفصیل کے مطابق سپریم کورٹ میں امریکی صحافی ڈینئیل پرل قتل کیس کے ملزمان کی رہائی کے معاملے کی جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ اٹارنی جنرل کا عدالت سے کہنا تھا کہ احمد عمر شیخ کوئی معمولی ملزم نہیں، وہ پاکستانی عوام کیلئے خطرہ ہے۔ پاکستانی قوم گزشتہ 20 سال میں دہشتگردی سے بری طرح متاثر ہوئی، سانحہ مچھ جیسے واقعات دنیا میں کہیں نہیں ہوئے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ احمد عمر شیخ کا دہشتگردوں کیساتھ تعلق ثابت کریں، جن کارروائیوں کا ذکر کیا ان سے اس کا تعلق کیسے جڑتا ہے؟
جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ احمد عمر شیخ 18 سال سے جیل میں ہے، دہشتگردی کے الزام پر کیا کارروائی ہوئی؟
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ریاست سمجھتی تھی کہ احمد عمر کیخلاف ڈینیئل پرل قتل مضبوط کیس ہے۔ احمد عمر لندن سکول آف اکنامکس میں زیر تعلیم رہا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کل تک آپ کا اعتراض تھا کہ ہائیکورٹ نے وفاق کو نہیں سنا، آج آپ کے دلائل سے لگ رہا ہے نوٹس نہ کرنے والا اعتراض ختم ہو چکا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا اصل اعتراض نوٹس والا ہی ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ میں وفاقی حکومت کی نمائندگی نہیں تھی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا سندھ حکومت نے ہائی کورٹ میں وفاق کو نوٹس نہ ہونے پر اعتراض کیا تھا؟ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ میں وفاق کی نمائندگی نہ ہونے کا اعتراض نہیں اٹھایا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سارے واقعہ کا ماسٹر مائنڈ عمر شیخ تھا۔ ڈینئل پرل قتل کیس کے ملزمان نے پورے پاکستان کو دہشت زدہ کیا۔ وفاق اور سندھ حکومت کو ایسے دہشت گردوں کی رہائی پر تشویش ہے۔ آرمی پبلک سکول کے واقعہ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایسے دہشت گردوں سے پورے ملک کے عوام کو خطرہ ہے۔