اسلام آباد: سپریم کورٹ میں عمران خان توہین عدالت کیس کے دوران جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے ہیں کہ عمران خان کیخلاف توہین عدالت کا کیس غیر موثر ہوچکا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا وفاق کیسے متاثرہ فریق ہے؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہناتھا کہ یہ عدالت اور عمران خان کا معاملہ ہے۔
نیونیوز کے مطابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں عمران خان توہین عدالت کیس کی پانچ رکنی بنچ نے سماعت کی۔وزارت داخلہ کے وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ جواب اور دیگر دستاویزات آگئے ہیں اس پر چیف جسٹس نے پوچھا سلمان اکرام راجہ صاحب کدھر ہیں؟
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حکومت کی دستاویزات پر جواب داخل کروا دیا ہے ۔ عمران خان کی طرف سے گزارشات دوں گا ۔
وزارت داخلہ کے وکیل نے کہا کہ ڈی چوک پر پہنچنے کی کال 24 مئی کو دے دی گئی تھی۔عدالتی آرڈر عمران خان تک پہنچا اس سے متعلق پورا ریکارڈ موجود ہے ۔مواد کے ساتھ یو ایس بی بھی پیش کی ہے۔یو ایس بی میں پی ٹی رہنماؤں کے بیانات ہیں۔وکیل وزارت داخلہ کے عمومی جواب پر اپنا جواب جمع کراؤں گا۔ وکیل وزارت داخلہ نے کہ عمران خان کے کنیٹینر کے گرد جیمرز والا دفاع درست نہیں۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں۔وکیل وزارت داخلہ نے کہا کہ جب عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری ہوگا تو سپریم کورٹ بطور ٹرائل کورٹ کیس چلائے گی۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ عمران خان کیخلاف توہینِ عدالت کیس غیر موثر ہو چکا۔جو واقعہ ہوچکا کیا اسے واپس لایا جاسکتا ہے۔
سلمان بٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ جب چاہے توہینِ عدالت کی کارروائی کر سکتی ہے۔ اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ سپریم کورٹ پہلے ہی حکمنامہ جاری کر چکی ہے۔ وزارت داخلہ کو توہین عدالت کی درخواست دائر کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ وفاق کیسے متاثرہ فریق ہے؟چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ توہینِ عدالت تو توہین کرنے والے اور عدالت کے درمیان کا معاملہ ہے ۔
سلمان بٹ نے کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی دستیاب مواد پر شروع کی جائے ۔وزرات داخلہ معاونت کرے گی کہ توہین عدالت ہوئی ہے یا نہیں۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ صرف عدلیہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کر سکتی ہے یہ معاملہ عدلیہ اور ملزم کے درمیان ہوتا ہے ۔
اس پر سلمان بٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار بھی توہین عدالت کی کارروائی کا کہہ سکتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا یہ عدالتی کارروائی پہلی کارروائی کا حصہ ہے؟کیا یہ ایک نئی عدالتی کارروائی ہے؟اگر نئی کارروائی ہے تو سیکورٹی ایجنسیز سے مواد عدالت کے سامنے آچکا ہے ۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے بہت زیادہ توہین عدالت کا مواد آیا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس مواد کی سمری ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پیش کی۔عمران خان نے بھی اپنے جوابات داخل کئے ہیں۔عمران خان کہتے ہیں کہہ ہدایات اسد عمر نے دی تھیں۔