پچھلے کالم میں، میں عرض کررہا تھا گورنمنٹ کالج لاہور میں شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے لیے جب میں نے بطور ایک طالب علم اڑھائی لاکھ روپے اکٹھے کرلیے تومیری اور میرے دوستوں کی خواہش تھی یہ رقم ہم براہ راست عمران خان تک پہنچائیں، ہم یہ سمجھتے تھے کوئی اور ذریعہ یا راستہ ہم نے اختیار کیا یہ رقم شاید عمران خان تک نہیں پہنچے گی، اُس وقت تک ہمارے علم میں نہیں تھا رقم جمع کروانے کے لیے شوکت خانم ہسپتال کا باقاعدہ ایک بینک اکائونٹ نمبر بذریعہ اشتہارات اخبارات میں جاری کیا گیا ہے، گورنمنٹ کالج لاہور میں ہمارے پنجابی کے ایک اُستاد محترم جو اِن دنوں مستقل طورپر امریکہ میں مقیم ہیں، اُنہوں نے ہمیں بتایا اسلامیہ کالج سول لائن میں انگریزی ادب کے ایک اُستاد دلدار پرویز بھٹی ہیں، اُن کی عمران خان سے بہت دوستی ہے، خان صاحب اُنہیں شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے فنڈریزنگ کے لیے بیرون ملک بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں، منیر لاہوری صاحب نے ہمیں مشورہ دیا ہم یہ رقم اگر اُن تک پہنچا دیں وہ اتنے ایماندار ہیں یہ رقم فوری طورپر عمران خان تک پہنچ جائے گی، … ہم اُسی روز اسلامیہ کالج سول لائن پہنچے مگر دلدار بھٹی اُس روز اپنی کلاسیں پڑھاکے جاچکے تھے، شعبہ انگریزی میں اُن کے ایک کولیک نے بتایا وہ عام طورپر روزانہ نوبجے صبح کالج پہنچ جاتے ہیں … اگلے روز ہم ٹھیک نو بجے اسلامیہ کالج کے مین گیٹ پر کھڑے ہوگئے، ہم دلدار بھٹی کو نہیں پہچانتے تھے، وہ اُن دنوں اتنے مقبول بھی نہیں تھے جتنے بعد میں ہوئے، ہم نے کالج گیٹ پر کھڑے چوکیدار سے کہا ’’ جیسے ہی دلداربھٹی صاحب آئیں آپ ہمیں بتادیجئے گا‘‘… کچھ دیر بعد کیسری رنگ کی ایک ’’فوکسی‘‘ جیسے ہی کالج گیٹ سے اندر داخل ہونے لگی چوکیدار نے ہمیں بتایا ’’لوجی بھٹی صاحب آگئے جے‘‘ …ہم اُن کی گاڑی کے پیچھے بھاگے ، جیسے ہی اُنہوں نے گاڑی پارک کی ہم نے اُنہیں بتایا ہم گورنمنٹ کالج لاہور کے سٹوڈنٹ ہیں‘‘ … وہ بولے ’’ایتھے کی لین آئے او؟‘‘…میں نے کہا ’’ سر لین نئیں آئے کجھ دین آئے آں‘‘… وہ مسکرائے اور ہمیں اپنے ساتھ لے کر شعبہ انگریزی میں اپنے کمرے میں آگئے، سخت سردی تھی، کمرے میں گیس کا ہیٹر چل رہا تھا، اُنہوں نے اپنی کرسی ہیٹر کے بالکل قریب کرلی، ہمیں بھی اپنی کرسیاں ہیٹر کے قریب لانے کے لیے کہا، ہم سے پوچھا ’’چاء پیو گے؟‘‘۔میں نے کہا ’’جے تُسی پیو گے تے اسی وی پی لاں گے‘‘… کہنے لگے ’’نئیں میں گھروں پی کے آیاواں‘‘ … پانچ دس منٹ کی مختصر ملاقات میں ہم جان چکے تھے وہ اچھے خاصے ’’مخولیے‘‘ ہیں، تب تک ہم بھی اُن سے بے تکلف ہوچکے تھے، اچانک دوستانہ ماحول بن گیا، اُنہوں نے کمرے میں موجود چوکیدار سے کہا ’’ایناں لئی چاء ’’وغیرہ‘‘ لے کے آ‘‘…میں نے چوکیدار سے کہا ’’یہ ’’وغیرہ‘‘ ٹھیک ٹھاک ہونا چاہیے، … چوکیدار کوئی بڑا ہی خبیث آدمی تھا، وہ خالی چائے اُٹھا لایا، میرا خیال تھا بھٹی صاحب اُس سے پوچھیں گے بھئی یہ ’’وغیرہ‘‘ کہاں ہے؟، بھٹی صاحب مگر خاموش رہے، میں نے خالی چائے کا پہلا گھونٹ بھرا اور بھٹی صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’سر خالی چاء داوی اپنا ای مزاجے‘‘ … بھٹی صاحب نے ایک قہقہہ لگایا اور مجھ سے پوچھا ’’کتھے رہندے او؟‘‘… میں سمجھ گیا وہ اصل میں کیا کہنا چاہ رہے تھے، میں نے کہا ’’اوتھے ای رہنے آں جتھے تُسی رہ کے آئے او‘‘… وہ مسکرائے اور کہنے لگے ’’مقابلہ سخت لگ رہا اے‘‘…پھر وہ اپنی سیٹ سے اُٹھے اور کمرے میں پڑی ایک الماری کھول کر اُس میں سے بسکٹ نکالے اور پلیٹ میں ڈال کر ہمارے آگے’’ڈال‘‘ دیئے‘‘…چائے سے فراغت کے بعد ہم نے اُنہیں اپنی آمد کا مقصد بتایا، اُنہوں نے فرمایا ’’فی الحال یہ رقم آپ اپنے پاس رکھیں۔میں عمران خان سے بات کروں گا اور اُسے لے کر آپ کے پاس گورنمنٹ کالج آئوں گا۔ آپ یہ رقم خود اُس کے سپرد کرنا ‘‘… مجھے لگاشاید وہ عمران خان کونہیں لاسکیں گے، میں نے عرض کیا ’’ہم یہ رقم جلد ازجلد اُن تک پہنچانا چاہتے ہیں، ہمیں آپ پر پورا بھروسہ ہے، آپ یہ رقم ہم سے لے لیں اور اُن تک پہنچا دیں‘‘ … وہ بولے ’’نہیں… پہلے میں عمران خان سے ذرا بات کرلوں‘‘… دودن بعد مجھ سے ملنا پھرمیں آپ کو بتائوں گا کیا کرنا ہے‘‘… اُنہوں نے مجھ سے پوچھا ’’آپ کے گھر فون لگا ہوا ہے ؟‘‘… اُن دنوں میرے گھرنیا نیا فون لگا تھا، یہ نوے کی دہائی کی بات ہے، مجھے آج تک اپنے گھر کا فون نمبر 323465یاد ہے،… اب یہ کہانی بلکہ بڑی دلچسپ کہانی بھی اپنی نوجوان نسل کو میں سناتا چلوں اُن دنوں کسی کے گھر فون لگنا بہت بڑا واقعہ ہوتا تھا، فون لگوانے کے لیے بیس بیس سال پہلے لوگ درخواست دیتے تھے اُس کے بعد بھی فون کسی تگڑی سفارش پر ہی لگتا تھا، کسی کے گھر یا دکان پر فون لگنا اتنی بڑی ’’خوشخبری‘‘ ہوتی تھی جیسے کسی بے اولاد کے گھر بیس پچیس برسوں بعد بیٹا پیدا ہوگیا ہو، میرے والدنے 1974ء میں فون لگنے کی درخواست جمع کروائی تھی، بیس برسوں بعد بھی فون مگر نہ لگا، گورنمنٹ کالج لاہور میں اس وقت کے صوبائی وزیرآبپاشی وبجلی چودھری محمد اقبال گجر کے صاحبزادے آصف اقبال ہمارے ساتھ تھے، چودھری اقبال صاحب کی اس وقت کے صوبائی وزیر اوقاف ملک خدابخش ٹوانہ کے ساتھ بڑی دوستی تھی، تین صوبائی وزراء کا بڑا مضبوط گروپ ہوتا تھا جس میں تیسرے وزیر ملک سلیم اقبال تھے جن کا تعلق چکوال سے تھا، ملک سلیم اقبال اورملک خدابخش ٹوانہ آج کل کہاں اورکس حال میں ہیں؟ مجھے اِس بارے میں معلوم نہیں، مگر چودھری محمد اقبال صاحب آج بھی گوجرانوالہ سے رُکن صوبائی اسمبلی ہیں، وہ میرے محسن ہیں، میں آج اللہ کے فضل وکرم ،ترس کے نتیجے میں جوکچھ ہوں میرے والدین کی دعائوں کے ساتھ ساتھ چودھری محمد اقبال صاحب کی سرپرستی کا بڑا کردار ہے، … اُس وقت کے وفاقی وزیر مواصلات (ٹیلیفونوں کے وزیر ) ملک نورحیات نون ملک خدابخش ٹوانہ کے کزن تھے، چودھری محمد اقبال صاحب نے ملک خدابخش ٹوانہ سے بات کی۔ اُنہوں نے ہمیں اپنے کزن وفاقی وزیرمواصلات کے نام ہمیںایک ’’رقعہ ‘‘ بنادیا، اُن دنوں وزیروں کی بڑی حیثیت ہوتی تھی، اُن کے رقعوں پر ہی کام ہوجایا کرتے تھے، مجھے یاد ہے اُن کے ’’رقعوں‘‘ کو ’’ڈی اولیٹر‘‘ کہتے تھے، ہم اپنا فون لگوانے کے لیے ملک خدابخش ٹوانہ کا رقعہ (ڈی او لیٹر) لے کر وفاقی وزیر مواصلات سے ملنے اسلام آباد چلے گئے (جاری ہے)