سپریم کورٹ نے 25 اکتوبر 2021ءکو کمشنر کراچی کو حکم دیا کہ شارع فیصل اور شاہراہ قائدین کے بیچ تعمیر ہونے والی پندرہ منزلہ عمارت نسل ٹاور کو ایک ہفتے میں منہدم کردیا جائے۔اس کے ساتھ ہی نسلہ ٹاور تعمیر کرنے والے بلڈرز کو بھی حکم دیا کہ وہ نسلہ ٹاور میں فلیٹ خریدنے والوں کی رقوم بھی واپس کریں۔رقم ادا کرنے کے حوالے سے بتاتا چلوں کہ ہمارے ایک عزیز نے کراچی میں ایک فلیٹ 2005 ءمیں بُک کرایا تھا۔ دوران تعمیر ہی وہ پلازہ دو بار فروخت ہوا۔ اب نئی انتظامیہ تمام فلیٹ نئی قیمتوں پر فروخت کرچکی اور جن لوگوں نے 2005 ءمیں بکنگ کرا رکھی تھی اور پیسے بھی ادا کررکھے تھے وہ کاغذات ہاتھوں میں لیے پلازہ کے دفاتر کے چکر لگا رہے ہیں۔ لیکن ان کی رقوم کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔اب نسلہ ٹاور کے متاثرین کو ان کی رقوم کیسے اور کب تک ملتی ہیں ، ماضی کی روایات کو دیکھتے ہوئے کوئی اچھی اُمید نہیں رکھی جاسکتی۔ نسلہ ٹاور منہدم کرنے سے یاد آیا کہ2018 ءمیں وزیراعظم عمران خان کو ہدایت کی گئی کہ وہ بنی گالا کے گھر کے کچھ حصے کی غیر قانونی زمین پر تعمیر پر جُرمانہ ادا کر کے اپنی زمین ریگولرائز کرا لیں۔ اسلام آباد ہی میں شاہراہ دستور پر گرینڈ حیات عمارت کو، جس میں کچھ عرصہ قبل کے ٹیکس گوشواروں کے مطابق ہمارے وزیراعظم صاحب کا بھی فلیٹ تھا، کو 2016ءمیں سی ڈی اے کی جانب سے سیل کردیا گیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں عمارت کے مالک بی این پی گروپ کو 17ارب آٹھ سال میں جمع کرانے کا کہا گیا کہ عمار ت ریگولرائزہوسکے ۔بحریہ ٹاﺅن کو بھی 460 ارب روپے جمع کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہی صورت نسلہ ٹاور کیس میں بھی اختیار کی جاسکتی تھی لیکن شائد کچھ اور وجوہات ہوں گی جن کے سبب اس عمارت کو منہدم کرنے کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون فور سیکٹر میں ایک بڑے سرمایہ دار خاندان کے ایک فرد کا پلازہ ہے۔ اس خاندان کے افراد نے سٹاک ایکسچینج میں بڑی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ بلکہ اس خاندان کے ایک فرد تو مقتدر حلقوں اور مذہبی جماعتوں کے درمیان مذکرات اور ثالثی کا وسیلہ بھی بنتے ہیں۔ اس پلازہ کا حال یہ ہے کہ تقریباً 180فلیٹ آباد ہیں۔ جن کے لیے فقط ایک بجلی میٹر موجود ہے ، اور وہ بھی آئے دن عدم ادائیگی کے سبب منقطع کردیا جاتا ہے۔ پلازہ کی انتظامیہ مکینوں سے بل کی رقم وصول کرلیتی ہے اور اس رقم کو بجلی کا بل جمع کرانے کے بجائے اپنے دیگر تعمیراتی
منصوبوں میں خرچ کر لیتی ہے۔ بجلی کی تاروں کی جوحالت ہے وہ انسانی جانوں کے لیے بھی کسی وقت خطرہ بن سکتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پلازہ ایسے حساس علاقے میں موجود ہے جہاں دفاعی اداروں کے مرکزی دفاتر موجود ہیں جی ایچ کیو کو بھی اسی علاقے میں منتقل کیا جانا ہے ۔ مگر کرایہ داروں کے حوالے سے بھی پلازہ کے شرفاءتشویش کا شکار رہتے ہیں کہ کرایہ داروں کی پولیس رپورٹنگ کا کوئی نظام موجود نہیں ہے جس کے سبب یہ پلازہ غیر ملکی جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔
کئی سال قبل اسلامک یونیورسٹی کے اساتذہ نے ایک سوسائٹی تشکیل دی۔ جسے بعد میں ایک زمین کے کاروبار سے منسلک ایک بڑے ادارے نے اس وعدے پر لے لیا کہ وہ اپنی سوسائٹی میں اساتذہ کو معمولی قیمت کے عوض پلاٹ دیں گے۔ جو لوگ ادارے کے دفاتر کے چکر لگاتے رہے انھیں تو کسی نہ کسی طرح پلاٹ مل گئے اور ایسے افراد جو بسلسلہ روزگار ملک سے باہر چلے گئے آج بھی اپنے کاغذات لے کرپلاٹ کے حصول کے لیے ادائیگی کرنے کے باوجود دربدر پھر رہے ہیں۔
ایف سیون سیکٹر اسلام آبادکے مرکز میں ایک آٹھ منزلہ شاپنگ مال تقریباََچار سال میں تعمیر ہوا.جسے آباد ہوئے بھی کئی سال ہوگئے ہیں ۔ پہلے اسے کئی ماہ تک سیل کیے رکھا کہ اس کی تعمیر جس پلاٹ پرہوئی وہ کمرشل پلازہ کے لیے مختص نہیں تھا۔ اس کے بعد پلازہ کی دکانیں کھول دینے کا حکم آیا اور پارکنگ فلور سیل کردیئے گئے۔ جس کے نتیجے میں ہوا یہ کہ دکان دار کی دکانداری شروع ہوگئی، پلازہ کے مالک کو کرایہ ملنا شروع ہوگیا اور خریدار جو اپنے پیسے خرچ کرکے خریداری کے لیے آتا پہلے آدھ گھنٹے تک سڑک پر پارکنگ کی جگہ تلاش کرتا۔ اب ستمبر 2021 ءمیںاحتساب عدالت نے سی ڈی اے افسران کو سزائیں سنائیں اور پلازہ کے مالک کو سات سال قید اور ایک ارب روپے کا جرمانے کی سزا سنائی ۔
راقم کا مشاہدہ ہے کہ دو تین دہائی قبل جب آج ووٹ کی عزت کی علم بردار سیاسی جماعت نے سرکاری اداروں ، بنک ملازمین کے لیے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی گولڈن شیک ہینڈ سکیم متعارف کرائی کہ اداروں پر سے ملازمین کو بوجھ کم ہوسکے اور نجکاری کا ”شفاف“ عمل مکمل ہوسکے۔ ملازمین کی رقوم پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے مختلف سرمایہ کاری کی کمپنیاں بصورت گدھ میدان میں کود پڑیں اور منافع کا لالچ دے کر لوگوں کے اربوں روپے لوٹ کر غائب ہوگئیں۔اسی طرح مختلف تعمیراتی کمپنیوں نے بھی زیادہ کرائے کا لالچ دے کر کمرشل پلازوں کے ڈھانچے کھڑے کردیئے اور بکنگ کرانے والوں سے مکمل رقوم لے کر غائب ہیں۔ گلستان جوہر کراچی میں اس قسم کے درجنوں پلازوں کے سٹرکچرز آج بھی خوابوں کا قبرستان بنے ہوئے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ لوگوں نے شارٹ کٹ کے چکر میں سرمایہ کاری تجارت ، کارخانوں اور صنعت میں لگانے کے بجائے پراپرٹی میں کی ہے، جس سے زرعی زمینوں پر سوسائٹیاں بننے لگیں اور ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود اہم اجناس بھی درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ کسی بھی علاقے میں چلیں جائیں دیگر ضروریات زندگی کی اشیاءکم ہوں گی مگر پراپرٹی کی دکانیں ان گنت موجود ہوں گی۔
پراپرٹی میں سرمایہ کاری سے ایک تو ملک میں نئے روزگار کے مواقع کم ہوئے، دوسرا کاریگر افراد بے روزگار ہوئے، تیسرا ملک کا انحصار درآمدی اشیاءپر بڑھ گیا جس کے سبب تجارتی خسارہ بڑھتا گیا اور مہنگائی کی شرح بلند ہوتی گئی۔ اس ضمن میں ایک مربوط اور جامع حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں جو ہوا سو ہو ا مگرملک کے عوام کو مزید برباد ہونے سے بچایا جاسکے۔