لاہور:سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ پی کے ایل آئی پر 34 ارب لگادیے گئے اور میں ڈیم کیلئے 10 ارب روپے اکٹھے نہ کرسکا۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بنچ نے لاہور رجسٹری میں پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ (پی کے ایل آئی) میں بچوں کے جگر کی پیوند کاری سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔ پی کے ایل آئی کی کمیٹی کے رکن ڈاکٹر جواد ساجد نے کہا کہ ہسپتال میں فوری طور پر بچوں کے جگر کی پیوند کاری ممکن نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں قوم سے کیا گیا وعدہ واپس لینا پڑے گا، بھارت ویزا نہیں دے گا اور چین جانے کی استطاعت نہیں ہے، 70 سال ہو گئے ڈاکٹر ایسی سہولیات پیدا نہیں کر سکے، پی کے ایل آئی پر عوام کے 34 ارب روپے لگا دیئے مگر علاج کی سہولت میسر نہ آ سکی، اتنے پیسے میں 4 ہسپتال بن جانے تھے، میں ڈیم کیلئے 10 ارب روپے اکٹھے نہیں کر سکا، ان کو 34 ارب روپیہ مل گیا۔
سربراہ ڈاکٹر جواد ساجد نے کہا کہ پی کے ایل آئی میں سہولیات تو موجود ہیں، مگر ماہرین کی ٹیم کا فقدان ہے، بڑوں کے جگر کی پیوند کاری پی کے ایل آئی میں مئی میں ممکن ہو سکے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے پی کے ایل آئی کے سابق سربراہ ڈاکٹر سعید اختر سے سوالات کئے تو سوشل میڈیا پر سپریم کورٹ کیخلاف مہم شروع کر دی گئی، اوورسیز ڈاکٹر خالد شریف اپنی خدمات دینے کو تیار ہیں مگر آپریشن کہاں پر کروائیں۔
چیف جسٹس نے ڈاکٹر سعید اختر سے پوچھا کہ پی کے ایل آئی کا آئیڈیا کہاں سے آیا؟ ڈاکٹر سعید اختر نے جواب دیا کہ سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے نیویارک ہسپتال کی مثال دے کر اس جیسا کام کرنے کو کہا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلی نے اپنا علاج خود وہاں کروایا اس لئے اس کی مثال دی، مجھے سب معلوم ہے، کس نے آئیڈیا دیا اور کہاں بیٹھ کر میٹنگ ہوتی رہی۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔