سلسلہ کلام وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں سے عارضی طور پر منقطع ہوا تھا۔ سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوتا۔ شاہد و مشہود کا سلسلہ ہو، یا عاشق و معشوق کا، اصل میں سلسلہ بندے اور رب کا ہے…… یہ کیسے منقطع ہو سکتا ہے۔ بندہ اپنے رب سے غافل ہو جاتا ہے، رب اپنے بندے سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔ جب بھی لوٹ کر آؤ، وہ اپنے بندے کا منتظر ہوتا ہے۔ معلوم نہیں محب کون ہے اور محبوب کون۔ بندہ جب تک خود محجوب نہ ہو، محبوب ہی رہتا ہے۔ رب نے اپنے بندے کو بڑے چاؤ سے بنایا ہے، اور بڑے لاڈ سے اس کی غفلتوں، کم عملیوں اور کوتاہیوں کے نخرے اٹھائے ہیں …… معلوم نہیں کون محبوب ہے اور کون محب!!
نعرہ مستانہ کے تیسرے شعر کی طرف لوٹے ہیں:
میں سوزِ محبت ہوں، میں ایک قیامت ہوں
میں اشکِ ندامت ہوں، میں گوہرِ یک دانہ
دل اور آنکھ کا تعلق عجب ہے، بلکہ غضب ہے! محبت کا بہتا ہوا جھرنا ہی سنگ سے سنگ دل کو ملائم کرتا ہے، دھیرے دھیرے اسے نرم کرتا ہے، گداز کرتا ہے۔ سبزہ سنگ و خشت میں نہیں اُگتا۔ ہریالی نرم و گداز زمینِ وجود کا تقاضا کرتی ہے۔ پانی …… استعارہ ہے علم کا۔ پانی …… علامت ہے زندگی کی، روئیدگی کی…… زندگی کی بقا اور تسلسل کی!! پانی آسمان سے آتا ہے۔ بارش غیاث بھی ہے اور غوث بھی!! زمین والے اپنی زندگی کے لیے آسمان کے محتاج ہیں۔ محبت کا دریا جہاں سے گزرتا ہے، زمین کو زرخیز کر دیتا ہے، زمین کو زندگی کے امکانات سے مالا مال کر دیتا ہے۔ دریا خواہ براہ راست ہریالی کا سامان کرے یا کسی واسطے اور وسیلے سے مہربان ہو…… بارش کے قطروں سے، شبنم کی صبح دم ٹھنڈک سے، یا پھر اشک ہائے ندامت کے موتیوں سے زمینِ وجود کو گہربار کرے…… یہ اس کی مشیت پر موقوف ہے۔
قلب اور قالب ایک دوسرے کے لیے روح اور جسم کی طرح ہیں۔ قلب جس طرف قبلہ رُو ہوتا ہے، قالب بھی اسی طرف مڑ جاتا ہے۔ قلب اور قالب زیادہ دیر تک ایک دوسرے سے بے وفائی نہیں کر سکتے۔ قلب ہی اپنے قالب کا امام ہوتا ہے۔
محبت کثرت کو وحدت میں ڈھالنے کی ایک پُرتاثیر تدبیر ہے۔ آگ، مٹی، ہوا اور پانی بظاہر الگ الگ اور متضاد و متحارب ہیں لیکن محبت ایسی وحدت گیر حقیقت ان سب متضاد قوتوں کو متوازی اور معاون کر دیتی ہے۔ محبت بیک وقت آب بھی ہے اور آتش بھی۔ محبت عجز و انکسار اور درماندگی میں مٹی کی مانند ہے، اور تحرک، قوت اور ہمہ جہت سرایت میں شرق تا غرب اٹکھیلیاں بھرتی ہوئی پَون ہے۔ یہ چاروں عناصر محبت کی امامت میں یکسو ہو جاتے ہیں۔
سوزِ محبت دل کو گداز کرتا ہے۔ دل کے گداز ہونے سے وجود میں بینائی کا محل یعنی چشم بھی تر ہو جاتی ہے۔ عجب بات ہے، سوز و آتش نے وجود کی ماہیت میں کیا تبدیلی رونما کی، کہ نتیجہ آنکھ میں پانی کی صورت میں نمودار ہو گیا۔
اس متغیر و حادث دنیا میں قائم رہنے والی حقیقت صرف محبت ہے۔ جس پر محبت کی قیامت گذر گئی، وہ قائم ہو گیا۔ یہ جہان بھی اس لیے قائم ہے کہ اس پر محبت کی نظر قائم ہے۔
محبت ہمہ حال شوقِ وصال میں بھی ہے…… اور اس کے ساتھ ساتھ کربِ فراق میں بھی۔ وصال اور فراق دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ چت ہو یا پت…… جیت محبوب کی ہوتی ہے۔ وہ وصال دے تو بھی وصال در وصال کی طلب محب کو فراق سے دوچار کیے رکھتی ہے۔ محبت ہی تو فراق کا شعور عطا کرتی ہے۔ محبت ہی بتاتی ہے کہ محبوب تک نارسائی کس حد تک موجود ہے۔ غفلت تو شہ رگ سے قریب و اقرب حقیقت سے بھی بیگانہ ہوتی ہے۔ یہ نارسائی کی ہوک دراصل وہ نغمہ ہے جو بانسری میں سُر بکھیرتا ہے۔ اپنے اصل سے واصل ہونے میں یہ نارسائی دل میں سوزِ مزید اور آنکھ میں اشکِ ندامت ایسے گوہرِ یک دانہ کا باعث ہے۔
کس یاد کا صحرا ہوں، کس چشم کا دریا ہوں
خود طور کا جلوہ ہوں، ہے شکل کلیمانہ
یاد فراق کی دین ہے۔ یاد کی وسعت کے سامنے صحرا بھی سہم جاتا ہے۔ یاد کے صحرا میں دریا جاری ہونا ایک معجزہ ہے…… اور یہ معجزہ سامانی سوزِ محبت کے زیرِ اثر چشمِ نم کی مہربانی ہے۔ فراق کے لق و دق صحرا میں زمزمہ محبت کا جاری ہونا پیمبرانہ فیض ہے۔ یہ شعائرِ محبت دراصل ابراہیمؑ، ہاجرہؑ اور اسماعیلؑ سے منسوب ہیں …… ابراہیمؑ کی خلت، ہاجرہؑ کی وارفتگی اور اسماعیلؑ کی پیہم تسلیم و رضا اس کے نشاناتِ منزل ہیں۔
مذکورہ شعر میں دوسرا مصرع تلمیحاتی رمز لیے ہوئے ہے۔ موسیٰ کلیم اللہ ہیں۔ سرِ طور اللہ سے ہم کلام ہوتے تھے۔ دیدارِ ذات کی طلب لاحق ہوئی۔ جواب حدیثِ لن ترانی تھا۔ اس میں ایک راز ہے۔ وحدت اپنے جلووں کی صورت ہر سمت عیاں ہے، لیکن بصورتِ ذات ایک سرِّ مخفی ہے۔ حریمِ وحدت میں دوئی کو داخل ہونے کا اذن نہیں۔ طلب میں دوئی ہے، بے نیازی میں یکسوئی ہے۔ دیدار کی طلب میں ایک طرف طالب ہے اور دوسری طرف مطلوب…… یہاں دوئی ظاہر ہو گئی…… لازم ہے کہ وحدت اگر خفا نہیں تو خفی و مخفی ضرور ہو جائے۔
یہاں ایک رمزِ مزید ہے…… دوڑتی ہوئی عقل اور سیماب صفت تجسس ذرا سا توقف کرے تو کھل جائے گی۔ موسیٰؑ شریعت کے پیامبر ہیں …… تجسس اور تکلم ان کی پہچان ہے…… خضرؑ سے دورانِ سفر و تدریس مکالمہ ان کی شناخت ہے…… ”ھٰذا فرق بینی و بینکم“ اس سفر کا حاصل ہے۔ شریعت ظاہر کا نصاب ہے۔ قانون کا قاضی لازم نہیں کہ قانونِ مشیت کی حکمتیں بھی جان لے۔ سو! مرج البحرین میں خضرؑ، جو واصلِ حق اور عارفِ مشیت ہیں، سے مژدہ فراق سنتے ہیں اور سرِ طور حدیثِ ”لن ترانی“
امتِ محمدیہ کا کمال دیکھیں کہ فرمایا گیا: ”میری امت کے علما (علمائے ربانیین، عارفین) بنی اسرائیل کے انبیا کی مانند ہوں گے“ رموزِ وحدت امتِ محمدیہ پر آشکار ہیں۔ ابنِ عربیؒ ہوں یا امام غزالیؒ…… مکالمے اور مشاہدے میں بنی اسرائیل کے انبیا کی شان کو تازہ و دوبالا کرتے ہیں۔ واقعہ معراج میں امام غزالیؒ کا حضرت موسیٰؑ سے ایک لاجواب مکالمہ بھی تاریخ میں درج ہے۔
تفصیل اس واقعے کی ہم نے مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کی محفل میں یوں سنی: موسیٰؑ نے رسولِ کریمﷺ سے ملاقات میں تعجب و تجسس کا اظہار کیا کہ آپؐ کی امت کے علما کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے انبیا کی مانند ہیں، چنانچہ عالمِ ارواح سے امام غزالیؒ کی روح کو طلب کیا گیا۔ حضرت موسیٰؑ نے ان کا نام دریافت کیا تو امام غزالیؒ نے اپنا نام، اپنے والد کا نام، دادا اور پھر پردادا کا نام بھی بتلا دیا۔ موسیٰؑ نے کہا کہ ہم نے صرف آپ کا نام پوچھا تھا، جواب میں غزالیؒ نے کہا کہ اللہ نے بھی صرف یہ پوچھا تھا کہ موسیٰؑ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے اور آپؑ نے جواب میں کہا تھا کہ یہ عصا ہے، اس سے بکریاں ہنکاتا ہوں، پتے جھاڑتا ہوں اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سے کام لیتا ہوں۔ روایت میں ہے کہ یہ مکالمہ سنتے ہی رسولِ کریمؐ نے اپنے عصا مبارک سے امام غزالیؒ کے پاؤں پر ٹہوکا دیا، کہ خاموش ہو جاؤ، سامنے جلیل القدر پیغمبرؑ ہیں۔ جب امام غزالیؒ اس عالمِ ناسوت میں پیدا ہوئے تو ان کے پاؤں پر عصا کا نشان موجود تھا۔ قصیدہ بردہ شریف لکھنے والے امام بوصیریؒ کے پاس اگر بردہ شریف (چادر) آ سکتی ہے تو عالمِ ارواح میں عصا کی ضربِ محبت کا نشان عالمِ شہود میں کیسے نہ آئے گا۔
آمدم برسرِ مطلب، وحدت کے خوگر، جب دوئی سے تائب ہو جاتے ہیں تو انہیں جلوہِ طور باہر نہیں، اپنے اندر ہی دکھائی دیتا ہے۔ طالب کے بہروپ میں وہ خود مطلوب ہوئے جاتے ہیں۔ بظاہر وہ طالبین کی شکل (شکلِ کلیمانہ) میں نظر آتے ہیں لیکن بباطن وہ خود جلوہئ طور ہیں۔ نعت کا ایک شعر ہے:
میں تو جنؐ کا امتی ہوں، وہ سرِ عرش جا کے ٹھہرے
سو میرے لیے نہیں ہے، یہ حدیثِ لن ترانی