کیسے ممکن ہے کہ جبر اور استحصال کے خلاف جدوجہد ہو اور حسینؓ بن علیؓ کا ذکر نہ ہو۔ والد مرحوم محمد اختر مسلمؔ نے 60ء کی دہائی میں ’’شہید کربلا‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر کتابچہ تحریر کیا تھا۔ یہ وہ عرصہ تھا جب پاکستان میں جاگیرداروی، سرمایہ داری کے خلاف بحث اور جدوجہد جاری تھی۔ یہ ہی پس منظر شہید کربلا کی تخلیق کا بنیادی سبب تھا۔
قرآن پاک نے قارون، فرعون اور ہامان کی شکل میں تین کردار بتائے ہیں۔ قارون نظامِ سرمایہ داری کی ہوسِ خون آشامی کا پیکر، فرعون ملوکیت کے استبداد کا مجموعہ اور ہامان مذہبی پیشوائیت کی روباہ بازیوں کا نمائندہ بتایا گیا ہے۔ ان کرداروں کی چیرہ دستیوں سے انسانیت آج بھی محفوظ نہیں ہے۔ ان کرداروں اور حق کے علمبرداروں کے درمیان ہمیشہ سے معرکے جاری ہیں اور ابد تک رہیں گے۔ ان باطل عناصر کی سرکوبی کے لیے پروردگار عالم نے دنیا میں معبوث کیے جانے والے جلیل القدر انبیاء علیہ السلام کے ذریعے سے دنیا کو روشنی اور ہدایت فراہم کی ہے۔ حق اور باطل کی ان معرکہ آرائیوں نے موسیٰؑ اور فرعون، ابراہیمؑ اور نمرود، خاتم النبیین محمد مصطفیﷺ اور ابوجہل اور حسینؓ و یزید کی صورت میں انسانی تاریخ کو لازوال کردار عطا کیے ہیں جو رہتی دنیا تک ظلم و جبر اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہونگے۔ انسانی تاریخ کی ان لازوال ہستیوں کے علاوہ ایسے مصلحت اندیش، موقع شناس اور مفاد پرست کمزور لوگ بھی نظر آتے ہیں جو اپنے مفاد کے لیے ان ہی لوگوں کو ذلیل و رسوا اور برباد کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جن کی بدولت انھیں طاقت اور اقتدار حاصل ہوتا ہے۔ عاشورہ کے روز امام حسین ؓ نے یزید کی فوج کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’تمھیں معلوم ہے تم حسین ؓ بن علی ؓ اور اسلام کے بہترین جانبازوں کے خلاف کون سی تلواریں سونتیں کھڑے ہو یہ وہی تلواریں ہیں جو پیغمبرﷺ نے تمھارے ہاتھوں میں دی تھیں۔ جو آگ ہم نے اپنے اور تمھارے دشمن کو بھسم کرنے کے لیے جلائی تھی، وہی آگ اب تم ہمارے جلانے اور تباہ کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہو‘‘۔ امام حسین ؓ نے مصلحت اور ذلت و رسوائی کی زندگی کے بجائے جنگ کے راستے کا انتخاب کیا جو ان کا اٹل فیصلہ تھا۔ ان کا فرمانا تھا کہ ’’یہ بات کہ ہم ذلیل ہوں اللہ کو پسند ہے اور نہ اس کے رسولﷺ کو اور نہ مومنین کو۔ ہم نے جن ماؤں کی پاکیزہ گودوں میں پرورش پائی ہے ان کو یہ منظور نہیں کہ اپنے یا امت کے لیے ذلت، خواری، مایوسی اور ناامید ی کا دروازہ کھولیں۔۔۔ یہ بہادر جو میرے ساتھ ہیں، یہ جواں مرد جو میرے ساتھ یہاں تک آئے ہیں اور میرے ارد گرد صف آرا ہیں ان کو بھی اپنی اور امت کی خواری منظور نہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں جو ادنیٰ درجے کے لوگوں کی اطاعت اور فرمانبرداری کو شہادت پر ترجیح دیں‘‘۔
عاشورہ کے روز ہونے والے المناک واقعے نے اسلامی تاریخ کا رخ موڑ کر رکھ دیا۔ اسلام جس کا پیغام اللہ تعالیٰ کی حاکمیت، احترام آدمیت، ملوکیت کا خاتمہ، قرآنی نظام ربوبیت، مساوات اور عدل و احسان جیسے شاندار اصولوں پر مبنی معاشرہ قائم کرنا تھا۔ مگر خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے دنیا سے پردہ کرنے کے بعد بتدریج سرمایہ داری، پرانے رسم و رواج دوبارہ جڑ پکڑنے لگے سوئی ہوئی عصبیتیں بیدار ہو گئیں اور پھر وہی عوائد پلٹ آئے۔ جیسے سورج ڈوبنے کے ساتھ تاریکی ضرور پکڑنے لگتی ہے اسی طرح خلیفہ دوئم حضرت عمر ؓ کی شہادت کے بعد تو ظلم اور مفاد پرستی کا طوفان بڑھتا چلا گیا اور حضرت عثمانؓ کے دور تک کم و بیش پوری طرح معاشرے کو اپنی گرفت میں لے چکا تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ؓ کی شہادت کے بعد جب زمامِ اقتدار امیر معاویہؓ کے ہاتھ آئی تو اسلام کے نام پر ایسے ایسے بیج بوئے گئے کہ جب ان کی کونپلیں پھوٹیں تو معلوم ہوا کہ اسلام کے روحانی اور انقلابی اصولوں سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا اور یہیں سے خلافت سے ملوکیت کے سفر کا آغاز ہوا۔ امیر معاویہؓ نے جب اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین مقرر کیا تو یہ عمل اسلام کی بنیادی روح سے متصادم تھا جس کے خلاف حضرت امام حسین ؓ نے عَلم بلند کیا۔ معرکہ کربلا کا مقصد نہ تو اقتدار کا حصول تھا نہ مال و دولت حاصل کرنا تھا۔ امام حسین ؓ کے نزدیک اسلام کے ان سنہری اصولوں کی حفاظت کرنا تھا جنہیں ملوکیت کی ضرب سے مسمار کیا جا رہا تھا۔ نااہل کو امانت سپرد نہ کرو جیسی اسلام کی مستقل قدر فراموش کر دی گئی تھی۔
قرآن پاک کی انقلابی تعلیمات، اسوۂ رسولﷺ اور امام حسینؓ کی عظیم قربانی کے باوجود بھی آج مسلمان ملوکیت، بادشاہت، سرمایہ داری اور جاگیرداری کے ساتھ ساتھ غلامی کے شکنجے میں جکڑ ے ہوئے ہیں۔ حالانکہ تاریخ کے اس عظیم معرکے کا مقصد انسانی حقوق کی حفاظت اور اصلاح امت تھا۔ آپ ؓ نے مدینہ روانگی سے قبل جو وصیت نامہ محمد بن حنفیہ کو دیا تھا اس میں توحید و رسالت کا اقرار کرنے کے بعد لکھا تھا ’’میں سرکشی اور جنگ و جدل کے ارادے سے نہیں نکل رہا ہوں اور نہ ہی میرا مقصد فساد پھیلانا یا کسی پر ظلم کرنا ہے بلکہ میں تو اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں۔ میری غرض فقط امر بالمعروف، نہی المنکر اور اپنے آبائو اجداد کی پیروی ہے‘‘۔
شہادت حسینؓ سے قبل اور بعد میں بھی تاریخ نے یہی بتایا ہے کہ ظلم اور جبر کی رات نے جب بھی کسی خورشید کو شہید کیا ہے تاریکی کو شکست دینے کے لیے صبح پھر ایک نیا سورج تراش لاتی ہے۔ حق اور صداقت کا عَلم بلند کرنے والے اگر ظاہراً شکست سے دوچار ہوئے بھی تو ان کے نام تاریخ میں سنہری حروف سے رقم ہوئے ہیں۔ آج بھی جب تمدن ارتقا کی کئی منازل طے کر چکا ہے، تب بھی جمہوریت کے لبادے میںسازشی اور چور دروازوں سے اقتدار پر قابض ہونے والے اور بظاہر کامیاب نظر آنے والے تاریخ میں کس سیاہی سے لکھے جائیں گے اس کا اندازہ مشکل نہیں ہے۔ سقراط، ولیم والس، گلیلیو، جیوراڈ برونو، ابن زبیرؓ، امام ابو حنیفہ سمیت سب نے ہی بظاہر شکست کا سامنا کیا لیکن ان کی فکر، استقامت اور جدوجہد کی عظمت کی چمک پوری آب و تاب کے ساتھ آج تک قائم ہے۔ جب کہ ان کے حریف تاریخ کے صفحات میں گم ہو گئے:
جیتنے والے کو معلوم نہیں
اس نے یہ جنگ کہاں ہاری ہے
اسی طرح کربلا میں فتح یزید اور اس کی فوج کو حاصل ہوئی لیکن عزت، احترام، توقیر اور امت کی ہمدردی امام حسین ؓ کے حصے میں آئی اور ان کی شہادت اور قربانی نے قیامت تک کے لیے ظلم اور جبر کے خلاف لڑنے والوں کے لیے ایک استعارہ کی شکل اختیار کر لی:
بڑھا ہے جب بھی ستم اپنی انتہا کی طرف
زمانہ دیکھنے لگتا ہے کربلا کی طرف