آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات کے نتائج راتوں رات آگئے۔ ووٹر ہی کتنے تھے۔ 32 لاکھ کی آبادی میں 14 لاکھ ووٹر، لوگوں نے کہا ووٹ ڈالنے والے کم، گننے والے زیادہ تھے۔ ایک ایک ووٹ پر اسلام آباد کی نظر، اِدھر آجائے اُدھر نہ جائے۔ اتنی کڑی نگرانی میں پی ٹی آئی کی جیت یقینی اپوزیشن کی شکست برحق، 261 آزاد امیدوار بھی کھڑے تھے سب ہار گئے لوح محفوظ میں یہی لکھا تھا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اتنی سی بات سمجھنے کے باوجود دھاندلی کا الزام لگا دیا۔ مریم نواز نے تو پورے الیکشن ہی کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے نتائج تسلیم کرنے سے صریحاً انکار کر دیا۔ بلاول بھٹو نے دھاندلی کا الزام لگایا پی پی کے نبیل گبول نے تو راز کی بات کہ دی کہ ہمیں 16 سیٹیں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن 11سیٹیں ملیں۔ کمال ہے لوگوں نے رات دن محنت کی، کروڑوں لٹائے، الیکشن جیت لیا تو کیا ہوا۔ نفسیاتی مسئلہ ہے ہار جاتے تو اس کے اثرات عام انتخابات پر پڑتے۔ پنجاب میں بھی گرفت کمزور پڑجاتی۔ دروغ برگردن راوی، مبینہ طور پر ایک لیڈر کو 8 کروڑ دینے کی افواہیں گردش کرتی رہیں۔ اتنے پیسے کون دے سکتا ہے۔ اسی لیے ہم نے سچ جھوٹ کا سارا بوجھ راوی کی گردن پر ڈال دیا۔ لوگ تماشا دیکھتے ہیں اور خود تماشائی کے بجائے تماشا بن جاتے ہیں، پاکستان میں انتخاب عوام کے لیے کھیل تماشا ہی بن گئے ہیں۔ ن لیگ کے جلسوں میں ہزاروں افراد، تل دھرنے کو جگہ نہیں، بیلٹ بکسوں سے صرف 5 لاکھ ووٹ نکلے۔ جلسوں میں شریک ہزاروں افراد پولنگ والے دن کہاں گئے؟ گھروں میں بند چھٹی مناتے رہے؟ پتا نہیں کشمیری بھائی ن لیگ کی ہار پر مغموم ہوئے یا نہیں لیکن جو جیتے ان کی جیت پر خوشی کا اظہار بھی نہیں کیا گیا۔ پوری آزاد وادی پر سکوت طاری، مقبوضہ کشمیر سے بھی کوئی تہنیتی پیغام نہ ملا ایک دوست نے بتایا بلند و بالا پہاڑوں سے ایک دوحہ گونجتا ہوا سنا گیا۔ ”نانی تیرے ووٹروں کو مور لے گئے، باقی جو بچے تھے پتا نہیں کون لے گئے“ دھاندلی کا شور فضول، سر کھپانے کے مترادف، جنہوں نے جیتنا تھا جیت گئے کون سی دھاندلی کہاں کی دھاندلی، سب اس جمہوری نظام اور موجودہ سسٹم کا کرشمہ، 6 لاکھ ووٹ لینے والی پارٹی کو 25 نشستیں ملیں 5 لاکھ سے زائد ووٹ لے کر بھی ن لیگ صرف 6 نشستیں حاصل کرسکی جبکہ 3 لاکھ ووٹوں والی پیپلز پارٹی 11 نشستیں لے گئی۔ مزید ایک دو نشستوں پر نظریں لگائے بیٹھی ہے۔ دوبارہ گنتی میں ذرا سی اونچ نیچ ہوئی تو ن لیگ ایک اور سیٹ سے محروم ہو جائے گی۔ ہاتھوں کی صفائی یا سیاسی شعبدہ بازیاں، پتے چھانٹنے والوں کی مہارت، اعصاب شکن الیکشن میں کشمیری عوام نے تبدیلی ایجنڈے سے متعلق پی ٹی آئی والوں کی باتوں پر اعتبار کیا۔ ما شاء اللہ، اللہ کرے زور سمجھ اور زیادہ، وہ ایک وفاقی وزیر کی آسان فہم اور عوامی گالیوں اور برے بھلے القابات سے بد مزہ نہ ہوئے لوگوں نے تالیاں بجائیں نعرے لگائے۔کتنے تھے جنہوں نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کانوں میں انگلیاں ٹھونسی ہوں گی۔ آزاد کشمیرمیں بھی ٹی وی
پر تبصروں اور تجزیوں نے کام دکھایا۔ ایک روز پہلے گیلپ سروے نے واضح کردیا تھا کہ جیت کس کی ہوگی۔ اسی لیے سروے شائع کرایا گیا عوام ”جو بات سمجھنی تھی وہی بات نہ سمجھے“۔ آزاد کشمیر میں انتخابی مہم کا رنگ ڈھنگ وہی تھا جو پاکستان کے شہروں میں ہوتا ہے۔ آزاد وادی میں وزیر اعظم کے جلسے اور ٹی وی چینلز پر وزیروں مشیروں اور ترجمانوں کے تبصروں نے اپنا کام دکھایا۔ آزاد کشمیر میں بھی یہی چینلز دیکھے جاتے ہیں۔ ووٹر چور ڈاکو، ڈاکو رانی، کرپشن بد عنوانی، تا حیات نا اہلی جیسے تبصروں سے متاثر ہوئے اور پی ٹی آئی کو نواز گئے گالم گلوچ اور الزام تراشی کے کلچر نے پاکستان اور آزاد کشمیر کے فاصلے اور کم کردیے ہیں۔ سیاسی سوچ میں یکسانیت آرہی ہے۔ اچھی بات ہے پاکستانیوں کی طرح وہ بھی مہنگائی سے ہر گز متاثر نہیں، پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے کی انہیں بھی کوئی فکر نہیں پاکستان کے وزیر اعظم کا تنخواہ میں گزارا مشکل لیکن کشمیری بھائی مطمئن، اللہ میاں انہیں اسی طرح خوشحال رکھے۔ مہنگائی کی فکر ہوتی تو سوچ مختلف ہوتی۔ غور کیجیے پوری انتخابی مہم میں حکومتی کارکردگی یا عوامی مسائل کے ذکر پر کم توجہ دی گئی۔ اس کے بجائے ایک دوسرے کو نشانہ بنایا گیا۔ لڑائی، جھگڑے، فائرنگ سبھی کچھ ہوا کسی نے پی ٹی آئی سے پورے ملک اور آزاد کشمیر میں ن لیگی حکومت سے ترقیاتی منصوبوں اور عوامی مسائل کے حل کے بارے میں نہ پوچھا۔ تمام پارٹیوں نے اپنی اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ پی ٹی آئی الیکشن جیت گئی لیکن آخر وقت تک اپوزیشن سے خوفزدہ رہی کہ وہ کہیں حکومتی کارکردگی اور عوامی مسائل کو اپنی مہم کا حصہ نہ بنا لے۔ بحمدللہ ایسا نہیں ہوا اپوزیشن جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد سے دھوکہ کھا گئی۔ مریم نواز، نواز شریف کا بیانیہ دہراتی رہیں اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگاتی رہیں۔ دانش ورانہ مہم اور عوامی مہم میں فرق نہ سمجھ سکیں۔ ایک بابا جی سے پوچھا آزاد کشمیر الیکشن بیانیے کی جیت تھی یا اختیارات کی لڑائی، کہنے لگے بیانیہ ویانیہ کچھ نہیں مریم نواز اکیلی رہ گئیں، شہباز شریف انتخابی مہم سے غیر حاضر، حمزہ شہباز، سعد رفیق، خواجہ آصف لا تعلق، مفاہمت والے مہر بلب، پتا نہیں نیب کے نوٹسوں، طلبیوں اور گرفتاریوں نے محتاط رہنے پر مجبور کردیا ہے۔ ن لیگ میں مفاہمت اور مزاحمت نے باہمی فاصلے بڑھا دیے یا ہمارا واہمہ ہے۔ یہ بھی خبریں آئیں کہ شہباز شریف کے پورے الیکشن کی حکمت عملی پر تحفظات تھے ایک مرحلے پر انہوں نے ن لیگ کی صدارت سے مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی کرلیا تھا لیکن حمزہ شہباز نے انہیں روک دیا۔ آزاد کشمیر کے الیکشن ہوگئے ن لیگ باہمی کش مکش اور تحفظات میں سیالکوٹ کا صوبائی الیکشن بھی ہار گئی۔ باعث تشویش، اپنی سیٹ کھو بیٹھی، اسے اپنی شکست کے محرکات پر غور کرنا چاہیے۔ آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی اور اسے ملنے والے ووٹوں میں زیادہ فرق نہیں سیالکوٹ میں بھی اس کے امیدوار کو پانچ چھ ہزار سے شکست ہوئی ہے۔ آزاد وادی میں الیکٹیبلز کی بڑی تعداد میں پی ٹی آئی میں شمولیت سے بھی اسے کامیابی میں مدد ملی ہے تاہم ن لیگ کے لیے خطرے کی گھنٹی ضرور بج رہی ہے۔ اس کی ساری طاقت کا مرکز پنجاب ہے اگر وہ آئندہ آنے والے دنوں میں بھی بیانیوں کے تحفظات اور مفاہمت یا مزاحمت کے چکروں میں الجھی رہی یا اس کے لیڈروں پر خوف کے سائے منڈلاتے رہے تو طوفانی دورے کرنے والے اس کی عوامی طاقت بہا لے جائیں گے۔ اس سے قبل بھی عرض کرچکے کہ ن لیگ کو اندر بیٹھ کر اپنے تحفظات کا اظہار ضرور کرنا چاہیے لیکن اگر اسے 2023ء کے انتخابات میں خم ٹھونک کر نکلنا ہے تو اسے اپنی تنظیم سازی پر توجہ دینا ہوگی۔ لوگ برملا کہتے ہیں کہ وہ نواز شریف کو ووٹ دیتے آئے ہیں لیکن نواز شریف ملک میں نہیں ہیں ان کی غیر حاضری کے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ وہ ملک میں ہوتے تو شاید ن لیگ کو تنظیم سازی کی اتنی ضرورت نہ پڑتی لیکن صدر ہونے کے ناتے شہباز شریف اور مریم نواز کو اس جانب پیش قدمی کرنی چاہیے چلتے چلتے یاد آیا کہ آزاد کشمیر میں شکست کی بڑی وجہ اپوزیشن میں ٹوٹ پھوٹ بھی ہے پی ڈی ایم کی تشکیل امید افزا تھی۔ عوام نے اس سے امیدیں وابستہ کرلی تھیں۔ لیکن اس کے اتنی جلدی ٹوٹنے سے لوگ حد درجہ مایوس ہوئے ہیں، ٹوٹنے کی وجہ کون سی پارٹی بنی اس سے قطع نظر اپوزیشن عوام میں اعتبار کھو بیٹھی ہے۔ پکے ووٹرز ابھی تک اگر چہ اس کے ساتھ ہیں لیکن ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے اپنے آشیانے تبدیل کرنے والے پروازوں کے کرتب دکھا رہے ہیں۔ اس سے آئندہ دنوں میں بھی حکمران پارٹی کو فائدہ اپوزیشن کو نقصان ہوگا۔ دھاندلی واندلی کو چھوڑیں اپنی صفیں درست کریں۔