باد ی النظر میں یہ خبر قو می حو الے سے جمہوریت کا ایک اہم تقا ضا پوری کر تی دکھا ئی دیتی ہے کہ الیکشن کمیشن نے وزیراعظم عمران خان کو بطور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف انٹراپارٹی الیکشن نہ کرانے پر شوکاز نوٹس جاری کیا ہے۔ تاہم یہ خبر اس امر پہ رو شنی نہیں ڈالتی کہ ان انتخابات کی شفافیت کو کیو نکر ما نیٹر کیا جا سکے گا۔ عمرا ن خا ن کی اپنی سیاسی جماعت تحریک انصاف میں مقبولیت سے انکار ممکن نہیں۔ پارٹی میں ورا ثت کے جرا ثیم بھی موجود نہیں۔ مگر وہ جسے انگر یزی میں Nepotism یا ہماری قو می زبا ن میں اقر با پروری کہتے ہیں، تو اس کے جر اثیم نا صر ف مو جو د ہیں بلکہ وہ شد ت سے پھول پھل رہے ہیں۔ تحر یکِ انصاف سے ہٹ کر اگر دوسری دو بڑی جما عتو ں کی بات کی جائے تو افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ ان میں وراثت کے علا وہ کچھ بھی تو نظر نہیں آ تا۔ البتہ یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ وطنِ عزیز میں جماعتِ اسلامی وہ واحد پارٹی ہے جو شروع دن سے انٹرا پارٹی الیکشن پہ پوری طرح عمل پیرا ہے۔ بہرحال اب لوٹتے ہیں الیکشن کمیشن کی جانب جس کے مطابق الیکشنز ایکٹ 2017ء کی رُو سے سیاسی جماعت کے عہدے داروں کے لیے وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر ہر پانچ سال بعد انٹرا پارٹی انتخابات کرانا ضروری ہیں مگر ہمارے ملک میں مین سٹریم کی کوئی سیاسی جماعت بھی اس قانونی تقاضے کے معاملے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں دو طرح سے کمزور ہو رہی ہیں۔ ایک تو جماعتوں کی سطح پر جمہوری کلچر پیدا نہیں ہو سکا اور جمہوریت کے مقاصد کی جدوجہد کے نام پر بنائی گئی جماعتیں اپنے آپ میں اس دعوے کے متضاد ہیں۔ دوسرا یہ کہ جماعتی بنیاد پر انتخابات کا کوئی شفاف طریقہ کار نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی جماعتیں قیادت کے بحران سے دوچار ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں کوئی متبادل قیادت کے نظام کا نہ ہونا بذات خود کوئی چھوٹا مسئلہ نہیں۔ انہیں تربیت یافتہ رہنماؤں کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ جماعتیں انتخابی عمل میں برتری کے لیے ”الیکٹ ایبلز“ کی مرہون منت ہیں۔ چونکہ نام نہاد الیکٹ ایبلز سیاسی، فکری اور نظریاتی اعتبار سے اس سیاسی جماعت کی پیداوار نہیں ہوتے جس کے نام پر وہ انتخابات میں حصہ لیتے اور جیت کر حکومت بنانے میں مدد دیتے ہیں؛ چنانچہ فکر ونظر کا یہ اختلاف بدستور باقی رہتا ہے اور بعض اوقات حکمران جماعت کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنتا ہے۔ حقیقی قیادت کے خلا کو ”الیکٹ ایبلز“ کے ذریعے پُر کرنا کسی سیاسی جماعت کو اس کے بنیادی مقاصد سے ہٹانے اور
فکری مغالطوں میں اُلجھادینے کا موجب ہے۔ قومی سیاسی جماعت کی حقیقی تعریف پر وہی جماعت پوری اترسکتی ہے جس کے پاس اوپر سے نیچے تک قیادت کا ایک نظام موجود ہو۔ اس نظام کے رخنوں کا کہیں کی اینٹ کہیں کے روڑے سے پُر کیا جانا حقیقی سیاسی جماعت کے شایان شان نہیں۔ سیاسی جماعت کو کسی خاندان، شخصیت یا گروہ کا مقید بھی نہیں ہونا چاہیے۔ کوئی سیاسی جماعت اپنے آپ میں اسی صورت میں مستحکم قرار پائے گی جب اس کا اپنا وجود جمہوریت کا آئینہ دار ہو۔ ایسا اسی صورت ممکن ہے جب سیاسی جماعتیں داخلی سطح پر احتساب اور انتخاب کے مسلسل عمل سے گزریں۔ یہی عمل کسی جماعت کو نظریاتی اور فکری استحکام عطا کرسکتا ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں اپنے بانیان اور ان کے خاندانوں کی باندی رہیں گی تو ملک و قوم کے لیے پائیدار اور حقیقی جمہوری ثقافت محض ایک خواہش تو ہوسکتی ہے مگر منطقی جواز اور اس حصولِ مقصد کے وسائل سے تہی۔ باہمی اختلافِ رائے کے باوجود تمام سیاسی جماعتیں ملک میں جمہوریت کی حمایت کے دعوے دار نظر آتی ہیں مگر اپنے معاملے میں مین سٹریم کی کوئی جماعت بھی اس سیاسی ویلیو کا احترام نہیں کرتی اور انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو اظہارِ وجوہ کے نوٹس دینا پڑتے ہیں۔ ایسے نوٹسز کی تعمیل میں انٹرا پارٹی انتخابات کی رسم کو سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کی حقیقی منظر کشی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ اسی قسم کی خانہ پُری ہوتی ہے جو ہماری سیاسی جماعتیں ایک مدت سے کرتی چلی آرہی ہیں۔ اس طرح کے انتخابات جمہوریت کے ساتھ مذاق ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں حقیقی جمہوریت، قوت اور اختیار کے ارتکاز کی جو صورتیں ہیں، کیا پاکستانی عوام نہیں جانتے؟ مین سٹریم کی سیاسی جماعتیں جس طرح خاندانی بلکہ شخصی گرفت میں ہیں ہمارے سیاسی نظام کی یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ملک میں جس سیاسی کلچر اور سیاسی نظام کو پسند کرتی ہیں اس کا اطلاق خود پر کیوں نہیں کرتیں؟ دنیا میں پائیدار جمہوریت کا نظام جہاں کہیں ملے گا سیاسی جماعتوں میں داخلی جمہوریت، متبادل قیادت اور جماعتی سطح پر سیاسی تربیت کا نظام اس کے ساتھ ملے گا۔ ان لازمی اجزائے ترکیبی کے بغیر پائیدار جمہوریت کا قوام تیار نہیں ہوتا۔ وطن عزیز کو بھی اس معاملے میں کوئی استثنا حاصل نہیں۔ اگر پون صدی میں ہم جمہوری بقا اور استحکام کے قابل نہیں ہوسکے تو اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے سچی لگن کے ساتھ ملک و قوم کے لیے جمہوریت کی استدعا کی ہی نہیں۔ سیاست برائے حصولِ اقتدار الگ چیز ہے اور نظریہ، عوام اور ملک کے وسیع تر مفاد کی اغراض اور جمہوری مقاصد کے لے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانا دوسری بات۔ ہماری سیاسی جماعتوں کا مطمع نظر محض حصولِ اقتدار تھا یا ملک و قوم کی خدمت؟ یہ کوئی راز نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری ماحول کی نایابی کا اثر اوپر سے نیچے تک رہنماؤں کے رویے میں بھی نظر آتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ رہنماؤں کی سطح پر نئی سوچ اور قیادت سے خوف پایا جاتا ہے۔ اگر یہ نفسیاتی رکاوٹ درپیش نہ ہو تو ہمارے ملک میں بنیادی جمہوریت کو فروغ ملتا۔ مگر جمہوری نظام میں قیادت کی نرسری اور عوام سے رابطے اور رسائی کے کلیدی عمل کو سیاسی جماعتوں کی صوبائی اور مرکزی حکومتیں قبول کرنے پر آمادہ نہیں، کیونکہ پاور میں شراکت کو سیاسی ذہن ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ شراکت اقتدار کی آمادگی جس قسم کا جمہوری مائنڈ سیٹ چاہتی ہے وہ سیاسی جماعتوں کے اندر شفاف اور آزادانہ انتخابات کے بغیر ممکن نہیں۔ چونکہ انٹراپارٹی انتخابات قانونی تقاضا بھی ہے اس لیے اس کی تعمیل میں مزید ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ یہ سیاسی جماعتوں کی قانونی ذمہ داری بھی ہے اور جمہوری کلچر کی جانب سفر کا پہلا قدم بھی۔