نوازلیگ کی سیاسی جدوجہد،غلطیاں اور مستقبل

02-Aug-17

پاکستان مسلم لیگ ن 2013کے عام الیکشن میں بھاری عوامی مینڈیٹ لے کر ابھری اور تیسری مرتبہ میاں محمد نواز شریف وزیراعظم بنے جو آج تک پاکستان کی تاریخ میں کوئی اور شخصیت نہ بن سکی۔  مگر اس باربھی وزیر اعظم نواز شریف اپنی مدت پوری نہ کر سکے اور عدالت کی جانب سے برطرفی کا سامنا کرنا پڑا۔ عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کو گوشواروں میں FZEکمپنی کے گوشوارے چھپانے پر آرٹیکل 62/63کے تحت نااہل قرار دے دیاجو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے معزز ججز نے متفقہ طور پر دیا، جس پر بعض قانون دانوں کے تخفظات بھی ہیں مگر ہم اس بحث میں نہیں جانا چاہتے۔

اگر ہم نواز شریف کی حکومت کا موازنہ گزشتہ حکومتوں سے کریں تو یقیناً یہ بات سب پر واضح ہو جائے گی کہ ان کے ادوار حکومت ترقیوں سے بھرے پڑے ہیں ۔نواز شریف کے دور میں امن آیا، کراچی میں خوف کی سیاست کا خاتمہ ممکن ہوا، 14اگست پر جو جوش و جذبہ کم ہو رہا تھا اسے دوبارا پروان چڑھایا،سڑکوں کا جال بچھایا، سی پیک کا انقلابی منصوبہ شروع کیا،لوڈشیڈنگ کے حل کے لیے بجلی کے بڑے بڑے پراجیکٹ لگائے،صرف امریکہ کی طرف دیکھنے کے بجائے انھوں نے روس کی طرف بھی دیکھنا شروع کیا۔  دہشتگردی کے سائے انہی کے دور میں کم ہوئے اور سب سے بڑھ کر سرمایاکاری اور معشیت گزشتہ ادوار سے قابل قدر بہتر ہوئی سٹاک ایکسچینج میں بھی نہ صرف تیزی آئی بلکہ غیر ملکی سرمایاکاری بھی پاکستان آئی۔

نواز شریف سے لاکھ اختلاف سہی مگر ان کے دور میں جو کام ہوئے ان سے انکار ممکن نہیں

ہمیں اچھے کاموں کی تعریف کرنے اور انہیں سپورٹ کرنے کی اچھی عادات کو اپنانا ہو گاہمیں سیاسی مخالفین کے اچھے کاموں پر انکی داد رسی کرنے کی اچھی روایات کو پروان چڑھانا ہو گا ۔ ہمیں منافقانہ رویہ چھوڑ کر آگے بڑھنا ہو گا۔ مگر نواز شریف کی بہت سی غلطیاں بھی ہیں جن کی وجہ سے وہ آج نااہلی تک پہنچے مگر یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے ہماری پارلیمنٹ کے فیصلے و اختیارات ہمیشہ عدالتوں میں جاتے ہیں ؟کیا سیاسی فیصلے بھی عدلیہ طے کرے گی؟کیا ہمیشہ عوام کے بھاری مینڈیٹ کو اسی طرح روندا جائے گا؟یہ توجہ طلب بات ہے کہ پارلیمنٹ کے اختیارات آہستہ آہستہ پارلیمنٹ سے باہر نکل رہے ہیں ۔یہ چند سوالات فیصلے کے بعد عوام کے ذہنوں میں گردش کرتے آرہے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف کے ساتھ یہ تو ہونا ہی تھا۔ جب ایوان پارلیمنٹ کا سربراہ قائد ایوان پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دیتا چار سال میں 3یا4دفعہ اسمبلی جائے تو کیسے ممکن ہے کہ وزراءاور باقی ارکان پارلیمنٹ جائیں گے، جب اداروں کے سربراہان یا وزراءاپنی وزارتوں پر توجہ دینے کی بجائے درباری کی حیثیت سے قصیدے پڑھیں گے تو ترقی کیسے ممکن ہو سکتی ہے، ادارے کیسے کام کریں گے ۔ اگر وزراءوزیراعظم کے لیے راگ الاپنے کے بجائے اپنی اپنی وزارتوں اور عہدوں کے حلف پر پورا اترتے تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اپنی پریس کانفرنس میں بھی انہی خوشامدی ٹولوں کا ذکر کرتے ہوئے نواز شریف کو مشورہ دے چکے ہیں کہ اگر فیصلہ آپ کے خلاف آیا تو یہ لوگ آپ کو کہیں گے کہ آپ مخالفین کے سر قلم کریں تو اس وقت آپ کو صبر سے کام لینا ہو گا ۔جب پارلیمنٹ میں کرسیاں خالی ہوں گی تو لازم ہے کہ پارلیمنٹ کے فیصلے جو پارلیمنٹ نے طے کرنے ہیں وہ جوڈیشری /عدلیہ میں ہی جائیں گے کیونکہ آپ نے کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑا ۔ مجھے آج بھی یاد ہے خورشید شاہ ہمیشہ سے ہی کہتے آئے تھے کہ میاں صاحب پارلیمنٹ میں آئیں ، پارلیمنٹ کو اہمیت دیں۔

گزشتہ دن آصف زرداری بھی اپنے ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے ہمارے مشورے نہیں مانے شاید وہ میاں صاحب کو یہی کہنا چاہ رہے تھے۔مجھے یاد ہے پی ٹی آئی اور بقیہ اپوزیشن جب پارلیمنٹ آتے تھے تو اللہ پاک کے 99ناموں کے نیچے جھوٹ بولا جاتاغلیظ زبان استعمال کی جاتی تھی۔  یہ میں کسی ایک پارٹی کا نہیں کہتا بلکہ سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے بھی پارلیمنٹ کو وہ اہمیت نہیں دی جو دینی چاہیے تھی۔

عمران خان بھی اسمبلی میں بمشکل 3،4دن گئے ہوں گے۔

بقول شاعر۔۔
غم جاناں کے زخموں کو نہ چھیڑ
زباں کھلے گی تو زخموں سے لہو ٹپکے گا
اب اگر مسلم لیگ ن کے سیاسی مستقبل کی بات کریں تو کہنا بجا نہ ہو گا کہ ن لیگ اس وقت مشکل ترین وقت سے گزر رہی ہے مجھے نہیں لگتا کہ پی ایم ایل ن واپس اپنے پاﺅں پر جلد کھڑی ہو جائے۔ دوسری طرف میاں صاحب نے وزارت عظمیٰ  کے منصب کے لیئے اپنے بھائی کا انتخاب کر دیا ہے ۔جس کے بعد مخالفین اور تجزیہ کارں کا کہنا ہے کہ پنجاب مسلم لیگ ن کے ہاتھوں سے نکل جائے گا ۔

نواز شریف نے اپنی 40سالہ سیاست میں 3دفعہ وزیراعلیٰ اور 3دفعہ وزیراعظم بننے کے باوجود پارٹی کے اندر سے بھائی کے علاوہ ایک لیڈر تیار نہیں کیا یا ہونے نہیں دیا جو ان کی جگہ لے سکے۔

چودھری نثار علی خان کی ناراضگی کی بھی ایک وجہ بظاہر یہی دکھائی دیتی ہے۔ میرے خیال میں پارٹی ورکرز کو موقع ملنا چاہیے تھا وزیراعظم بننے کا مگر پاکستان میں بعض لوگ حکومتوں اور پارٹیوں کو اپنے زیر اثر رکھنا چاہتے ہیں ۔اب نواز شریف کو دوسرا مسلئہ چودھری نثار علی خان اور اور خواجہ آصف کی ناراضگی کا درپیش ہے، جو مسلم لیگ ن کے لیے بڑا مسلئہ بن کر ابھر رہا ہے ۔ یہ بھی سچ ہے کہ یہ دو بندوں کی لڑائی نہیں بلکہ دو دھڑوں کی لڑائی ہے۔  اگر نثار علی خان اپنی سیٹ سے استعفیٰ دے دیتے ہیں تو ن لیگ کو بہت نقصان اٹھانا پڑے گا اور 2018کے الیکشن میں بھاری خمیازہ بھگتنا ہو گا ۔ مسلم لیگ ن اس ساری صورتحال سے کیسے نکل سکتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نواز شریف کی سیاست ابھی ختم نہیں ہوئی وہ ہی اپنی پارٹی کے سیاسی فیصلے کریں گے ، وہ ہی پاکستان مسلم لیگ ن کے حقیقی قائد ہیں جس سے انکار ممکن نہیں۔

بلاگ لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہے۔نیونیوز نیٹ ورک کا بلاگر کی رائے  اور نیچے آنے والے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

سراج احمد تنولی  کالم نگار، ینگ صحافی اور بلاگر ہیں 
 

مزیدخبریں