اسلام آباد: ایک نئی طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سالگرہ میں یا دیگر تقریبات کے موقع پر کیک میں لگی موم بتیوں کو بجھانے کے لیے اطراف میں موجود لوگوں کے پُھونک مارنے کے نتیجے میں وہ جگہ جراثیم سے بھر جاتی ہے۔
برطانوی اخبار "ڈیلی میل" کے مطابق امریکی ریاست جنوبی کیرولائنا میں کِلیمسن یونی ورسٹی کے محققین کی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ موم بتیوں کو پُھونک مارنے کے دوران جو لُعاب پھیلتا ہے اس سے موم بتیوں پر جمع ہونے والے جراثیم کی شرح میں 1400% اضافہ ہو جاتا ہے۔
یہ تحقیق یونی ورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر پول ڈاؤسن نے اپنے طلبہ کے ساتھ مل کی انجام دی۔
محققین کی ٹیم نے کیک پر موم بتیاں جلانے اور پھر ان کو اجتماعی طور پر بجھانے کے عمل کو خاص انداز سے پورا کیا۔ نتائج کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ اس عمل کے دوران بہت سے جراثیم واضح طور پر پروان چڑھے تاہم اس سے زیادہ خوف ناک بات یہ ہے کہ ہر پُھونک کے سبب جراثیم کی مختلف اقسام کا ظہور ہوا۔
محققین کے سامنے یہ بات بھی آئی کہ پورے عمل میں جراثیم کی شرح میں اوسطا 14 گُنا اضافہ ہوا۔ ایک مرتبہ تو اس شرح میں 120 گُنا سے زیادہ اضافہ بھی درج کیا گیا۔
ڈاکٹر ڈاؤسن نے واضح کیا کہ "ہماری تمام تحقیق کے باوجود میرے خیال میں کیک کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے کیوں کہ میرا نہیں خیال کہ جراثیم کی شرح میں اضافہ بعض لوگوں کے لیے مرض کا سبب بن سکتا ہے۔ عام طور پر انسانی منہ کے اندر بہت سی اقسام کے جراثیم بھرے ہوتے ہیں ، خوش قسمتی سے ان میں اکثر نقصان دہ نہیں ہوتے۔ اگر یہ چیز بیمار کر دینے والی ہوتی تو ہم طویل عرصے سے ملاحظہ کر رہے ہیں کہ سال گرہ کی تقریبات اور موم بتیوں کا گُل کرنا پوری دنیا میں بہت زیادہ عام ہے"۔