تحریک عدمِ اعتمادکی کامیابی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کیونکہ ق لیگ کے سوانہ صرف تمام اتحادی حکومت سے الگ ہو چکے ہیں بلکہ حکمران جماعت کے اپنے کئی ممبران جماعت سے ناتا توڑ کر الگ ہو چکے ہیں اِس لیے حکومت کی تبدیلی میں کوئی امر مانع دکھائی نہیں دیتا جمہوریت میں ایسی تبدیلی کوئی انہونی بات نہیں دنیا کے کئی ممالک میں اکثریت سے محرومی کی بنا پرحکومتیں تبدیل ہو چکی ہیں اِس لیے بہتر یہی ہے کہ یہاں بھی تبدیلی کو نارمل سمجھاجائے کیونکہ عدمِ اعتماد خلاف آئین نہیں بلکہ اِس کاباقاعدہ طریقہ کار موجود ہے پھر بھی حکومتی صفوں میں چیخ و پکار جاری ہے اور عدمِ اعتماد کی تحریک کے پسِ پردہ بیرونی عوامل کارفرماہونے کا واویلا کیا جارہا ہے جس سے ایسے خدشات کو تقویت ملنے لگی ہے کہ موجودہ حکمران ایک خط کو بنیاد بنا کر انتخابی ماحول پیداکرنا چاہتے ہیں مگر ایسا کرنے سے نہ صرف ملکی سیاست میں تلخی فروغ پائے گی بلکہ عالمی طاقتوں سے تنائو میں بھی اضافہ ہو گا جس سے ملک کے معاشی ودفاعی مفادات متاثر ہو سکتے ہیں ۔
ایک بات تو طے ہے کہ بیرونِ ملک سے آنے والا خط ایک حقیقت ہے جسے کسی صورت جھٹلایا نہیں جا سکتااور یہ حکومتی ایماپر نہیں لکھا گیا بلکہ سفیر نے جو سنا یا محسوس کیا وزارتِ خارجہ کو مطلع کردیا مگر اِس خط سے یہ جو رائے عامہ بنائی جارہی ہے وہ سراسرغلط ہے یہ درست ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ کو پاکستان کی خارجہ پالیسی سے تحفظات ہیں اسی بنا پر دونوں ممالک کے اعلیٰ سطح روابط میں کمی آچکی ہے اِس کی ایک وجہ تو افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان سے متعلق ضروریات ختم ہو نا ہیں دوم امریکی ترجیحات میں اب پاکستان سے زیادہ بھارت اہم ہوگیاہے کیونکہ جنوبی ایشیا کے اِس بڑے ملک کے تعاون سے چین کا گھیرائو کرنے کا منصوبہ ہے اسی لیے اقلیتوں کی نسل کشی ہو یا اقوامِ متحدہ کے روبروکیے کشمیریوں کوحقِ خوداِرادیت کے وعدوں سے منحرف ہوکر متنازع علاقے کو یکطرفہ اقدام کے ذریعے ضم کر لے امریکی محسوس نہیں کرتے بلکہ بھارت کو حق بجانب تصورکرتے ہیں لیکن امریکی نوازشات کے باجود بھارت فوری طور پر روس سے قطع تعلقی نہیں کر رہا کیونکہ اُس کے پاس زیادہ تر ہتھیاراور لڑاکا طیارے روس ساختہ ہیںحال میں جدید ترین میزائل سسٹم بھی خرید چکا ہے اسی لیے امریکی ناپسندیدگی کے باوجود روس سے دوستانہ مراسم برقرار رکھے ہوئے ہے مگر جانے پاکستانی رہنمایہ طریقہ کیوں کیوںنہیں اپناتے کیونکہ مملکتوں کے تعلقات مفادات کے تابع ہوتے ہیں کوئی ملک کسی پر بے لوث نوازشات نہیں کرتا اگر پاکستان بھی امریکہ سے بگاڑے بغیر روس اور چین سے قریبی روابط بنانے کی کوشش کرے تو زیادہ بہتر ہے مگرموجودہ حکومت نے محدودسیاسی مفادات کے لیے امریکیوں کو نشانے پر رکھ لیا ہے حالانکہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی مصنوعات کا وہ آج بھی سب سے بڑا خریدار ہے نیز یورپی یونین نے اپنی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کو خصوصی مراعات دے رکھی ہیں دونوں سے بیک وقت بگاڑمول لینے سے نہ صرف عالمی مالیاتی اِداروں سے نئے قرضوں کا سلسلہ منقطع سکتا ہے بلکہ تجارتی مفادات کو نقصان
احتمال ہے عمران خان نے اپنی تقریر میں ایسا ماحول بنا دیا ہے جس کی تلخی آسانی سے ختم نہیں ہو سکتی بلکہ دونوں ملکوں میں بے اعتباری میں اضافہ ہوگا۔
ہر ملک اتحادیوں کو دوسرے کیمپ میں جانے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے امریکہ نے بھی عمران خان کو روس کے دورے پر جانے سے قبل باز رکھنے کی پوری کوشش کی اور سفارتی ذرائع سے سخت پیغام بھی دیا لیکن کوئی پروا نہ کی گئی اور عمران خان تمام تر اعتراضات کے باوجود روس کے دورے پر چلے گئے بات یہاں تک ہی رہتی تو کوئی مسئلہ نہ ہوتا بات تب بگڑی جب روس نے دورے کے دوران ہی یوکرین پر حملہ کر دیا یہ حملہ امریکہ اور اُس کے اتحادی مغربی ممالک کو سخت ناپسندہے ایک تو پاکستانی وزیرِ اعظم باوجود منع کرنے کے ماسکو پہنچ گئے جنھیں گرمجوشی سے نہ صرف خوش آمدید کہا گیا بلکہ دیگر ممالک سے آنے والے مہمان سربراہوں کی طرح سلوک کے بجائے مذاکرات میں بالکل ساتھ نشست پر بٹھا یا گیا مزید خرابی یہ ہوئی کہ روس اور یوکرین جنگ کی پاکستان نے حمایت یا مذمت کرنے کے بجائے غیر جانبدار ی اختیارکرلی جس سے نہ صرف امریکہ ناراض ہو ابلکہ مغربی ممالک میں بھی تشویش پیدا ہوئی عالمی امور پر یک زبان واشنگٹن اور لندن جو عرصہ سے پاک بھارت تنائو ختم کرانے کے متمنی ہیں تاکہ بھارت پوری توجہ چین پر دے سکے مگر دونوں ویٹورپاور عمران حکومت کے اقدامات سے بے چین ہیں برطانیہ میں مقیم کچھ اپوزیشن رہنمائوں سے دونوں کے اعلیٰ حکام نے ملاقاتیں بھی کی ہیں اور امریکہ میں پاکستانی سفارتکار کومیزبان ملک نے خاصے سخت اورتلخ لہجے میںکچھ ہدایات دیںجس کی تفصیلات سفیر نے تحریری شکل میں خط کی صورت میں اسلام آباد وزارتِ خارجہ بھیج دیں یہ خط کمزور حکومت کو غیبی مدد محسوس ہوئی عمران خان نے ملک میں موجود امریکی نفرت کیش کرانے کا منصوبہ بنایا یہی منصوبہ ملکی سیاست میں اتھل پتھل کا باعث بننے والا ہے۔
ملک میں عام لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارے ملک میں جو آئے روز سیاسی اکھاڑ پچھاڑ ہوتی ہے اِس میں امریکہ ملوث ہے اورخارجی سمت کے حوالے سے بھی ہمارے حکمرانوںکو دبائو کا سامنا رہتاہے یہ بات کسی حد تک درست ہے یہ مداخلت پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان سے ہی شروع ہو گئی جس کی بنیاد روسی دعوت نامے پر امریکہ کو ترجیح سے ہوئی اِس دورے سے پاکستان کو کئی دہائیوں تک روسی نفرت کا سامنا کرنا پڑاپھر 1971کی پاک بھارت جنگ میں امریکی بیڑے کی وعدے کے مطابق آمد نہ ہونے سے عوامی حلقوں میں پنپتی نفرت کو مہمیز ملی روس کی افغانستان پر چڑھائی کو کفرواسلام کی جنگ قرار دے کر اسلام پسند حلقے کو امریکی ایماپرجہاد کی طرف راغب کیا گیا مگر روس کی شکست کے فوری بعد امریکہ نے نظریں پھیر کر پاکستان کونظرانداز کرنا شروع کر دیا مختلف پابندیاں لگائیں دفاعی سازوسامان دیتے ہوئے بھارت کے خلاف استعمال نہ کرنے کی شرائط عائد کی گئیں ایسی شرائط عوام میں موجود نفرت کو بڑھادیا ۔
9/11 واقعات کے بعد امریکہ نے افغانستان کو تباہ و برباد تو کر دیا ساتھ ہی پاکستان پر ڈرون حملوں سے سویلین آبادی و املاک کو شدید نقصان پہنچایا اُسامہ بن لادن آپریشن ہو یا طالبان رہنمائوں کو نشانہ بنانا، پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کو ان گنت بار پامال کیا گیا جس سے پاکستان کے طول وعرض میں امریکی نفرت کو عروج ملا بعد میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور پھر محفوظ انخلا یقینی بنانے کے باوجود جب امریکہ کی طرف سے بھارت کا افغانستان میں کردار رکھنے کا مطالبہ ہواتو سویلین کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ بھی بھونچکا رہ گئی کیونکہ یہ کسی کو پسند نہیں اسی نفرت کو ہوادیکر عمران خان پہلے بھی اقتدار میں آئے خط سے ہلچل میں بھی یہی خواہش ہے کسی طرح آئندہ الیکشن بھی اسی نفرت کو کیش کراکر جیتاجائے وہ بھٹو کی طرح امریکی نفرت کے سہارے مقبولیت بڑھانے کے خواہشمند ہیں مگر سچ یہ ہے کہ خط لکھا ضرورگیا ہے مگر لکھنے والا پاکستانی سفارتکار ہے خط میں احکامات نہیں بلکہ موجودہ خارجہ پالیسی کے متعلق چند ہدایات اور مطالبات ہیں دوسری بات یہ ہے کہ عالمی طاقتیں ہر ملک میں نرم گوشہ رکھنے والے سیاسدانوں سے رابطہ رکھتی ہیں اسی لیے نوازشریف سے ملاقاتیں عجوبہ نہیں چین ہو یاروس ،وہ بھی نرم گوشہ رکھنے والے سیاستدانوں سے راہ رسم قائم رکھتے ہیں خط سے پیدا ہونے والی ہلچل سے ایک بات طے ہے کہ موجودہ اسمبلیاں مدت پوری کرتی دکھائی نہیں دیتیں البتہ امریکہ سے نفرت کیش کر اکر عمران خان دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں ؟اِس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے چند ماہ انتظار کرنا پڑے گا۔