عمران خان کا دورِ حکمرانی

عمران خان کا دورِ حکمرانی

ہماری قومی سیاست (وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد) فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اپوزیشن نے سندھ ہائوس میں ایک اجلاس کے ذریعے 177 ممبران کی تعداد شو کر دی ہے اس میں تحریک انصاف کے 22 باغی اراکین شامل نہیں کئے گئے حالانکہ وہ بھی اس اجلاس میں شریک تھے اگر انہیں بھی گنتی میں شمار کیا جائے تو یہ تعداد 199 تک جا پہنچتی ہے۔ ہر دو صورتوں میں عمران خان پارلیمان میں اپنی ننھی منی اکثریت کھو چکے ہیں۔ ایم کیو ایم کے اپوزیشن کے ساتھ شامل ہونے کے اعلان نے صورت حال بالکل واضح کر دی ہے اب اس بارے میں کوئی ابہام نہیں رہ جاتا کہ عمران خان اخلاقی اور پارلیمانی روایات کے مطابق ملک کے وزیراعظم نہیں رہے ہیں لیکن وہ اپنی شکست تسلیم کرنے پر آمادہ نظر نہیں آ رہے ہیں وہ آخری بال تک کھیلنے کے لئے بضد ہیںحالانکہ میچ آخری اوور سے پہلے ہی فیصلہ کن ہو چکا ہے لیکن اپنی افتاد طبع کے عین مطابق وہ سیدھے ہاتھوں اقتدار سے رخصت ہونے والے نہیں ہیں وہ اپنے تمام آپشن ضرور استعمال کریں گے۔ ایک آپشن استعفیٰ دینے کا ہے لیکن ان کے ماضی اور حال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس آپشن پر عمل نہیں کریں گے وہ لڑنے بھڑنے کے شوقین ہیں آخری بال تک کھیلنے کا اعلان بھی کر چکے ہیں اپنے قومی خطاب میں (بروز جمعرات) انہوں نے تحریک عدم اعتماد کا (بروز اتوار) سامنے کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے گویا وہ آخری بال بھی کھیلنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ حالانکہ انہیں ایوان سے آئوٹ کرنے کے لئے اپوزیشن فیصلہ کن بال پہلے ہی پھینک چکی ہے۔ اپنے حمایتی ممبران کی تعداد ظاہر کر کے اپوزیشن نے آخری بال پھینک دیا ہے۔ 
عمران خان اور ان کے ترجمان کچھ عرصہ پہلے تک اپوزیشن کو چتاونی دیا کرتے تھے کہ وہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں۔ جوں جوں تحریک پیش کرنے میں دیر ہوتی گئی اپوزیشن کی حیثیت مشکوک ہوتی چلی گئی حکومتی بیانیہ موثر نظر آنے لگا پھر جب اپوزیشن نے تحریک جمع کرا دی تو عمران خان صاحب نے ان کا شکریہ بھی ادا کیا اور اس طرح اپنے مضبوط ہونے کا تاثر دینے کی کوشش کی۔ پھر حتمی ملاقاتوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ دشمن، دوست بننے کی کوششیں کرتے نظر آئے۔ دشمن، اپنے دشمنوں کو منانے کے مشن پر چل نکلے تحریک انصاف کے ناراض اراکین کے بارے میں خبریں آنے لگیں کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے حق میں ووٹ ڈالیں گے۔ اطلاعات آنے لگیں کہ ’’باغی ممبران‘‘ کو اپوزیشن نے کہیں چھپا رکھا ہے پھر راجہ ریاض اور ساتھیوں کے حامد میر کے ساتھ پارلیمانی لاجز سندھ ہائوس میں انٹرویو نے ہلچل مچا دی۔ حکومت بوکھلا گئی۔ اس نے ایک طرف اپنے 14 ممبران کو شوکاز نوٹس جاری کیا اور دوسری طرف سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا کہ 63A کی تشریح کرے جس کے تحت باغی ممبران کو ’’ڈی سیٹ‘‘ کیا جا سکتا ہے حکومت نے باغی ممبران کی تاحیات نااہلی کا ایشو کھڑا کر کے باغیوں کو پریشان کرنے کی کوشش کی۔ باغیوں کے سماجی بائیکاٹ کا بھی اعلان کیا گیا ان کے خلاف مظاہرے بھی منعقد کرائے گئے ایسانظر آنے لگا کہ باغی اراکین، تحریک عدم اعتماد میں اپنا ووٹ شاید استعمال نہ کر سکیں اس طرح اپوزیشن 172 کا ہندسہ پورا نہیں کر پائے گی۔ اپوزیشن اس دوران اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھی مذاکرات جاری رکھے ہوئے تھی، ق لیگ، بلوچستان عوامی پارٹی، جی ڈی اے اور آزاد ممبران کے ساتھ سلسلہ جنبانی جاری تھا ق لیگ اس حوالے سے اہمیت اختیار کرتی چلی جا رہی تھی حتیٰ کہ انہیں اپوزیشن نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیشکش کر ڈالی پھر 
معاملات حتمی منزل تک پہنچتے نظر آنے لگے۔ بلوچستان عوامی پارٹی نے اپوزیشن کے ساتھ چلنے کا حتمی فیصلہ کیا تو فہمیدہ مرزا نے اپنے گروپ کے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور علیحدگی اختیار کر لی۔ اس کے ساتھ ہی ق لیگ انتہائی اہم ہو گئی چودھریوں کے ساتھ اپوزیشن کے معاملات حتمی انداز میں طے ہو چکے تھے بڑے چودھری صاحب نے تو زرداری صاحب کو مبارکباد بھی دے دی تھی۔ عمران خان صاحب چودھریوں کے مطالبات بشمول وزارت اعلیٰ پنجاب نہ ماننے کا برملا اعلان کر چکے تھے صاف نظر آنے لگا کہ گیم اوور ہونے جا رہی ہے اچانک چودھری پرویز الٰہی نے عمران خان سے ملاقات کی اور وزارت اعلیٰ پنجاب کی نامزدگی لے کر پی ٹی آئی کے روٹھے ہوئے اراکین کو بھی منانے کی ذمہ داری 
قبول کر کے سیاسی بھونچال کھڑا کر دیا ایک بار نظر آنے لگا کہ بازی الٹ گئی ہے اس کے ساتھ ہی ق لیگ اور چودھری خاندان میں پھوٹ پڑ گئی۔ بشیر چیمہ نے وفاقی وزارت سے مستعفی ہو کر تحریک عدم اعتماد کی سپورٹ کا اعلان کر دیا۔ چودھری شجاعت خاندان کی ناراضگی کی خبریں بھی سامنے آنے لگیں۔ اس کے بعد ایم کیو ایم کی اپوزیشن کے لئے ’’ہاں‘‘ نے سیاست کا پلڑا ایک بار پھر اپوزیشن کے حق میں جھکا دیا۔ سندھ ہائوس میں پی ٹی آئی کے 22 باغیوں کی موجودگی سمیت اپوزیشن نے اپنے 199 اراکین کا اجلاس بلا کر عمران خان صاحب کے اقتدار پر حتمی ضرب لگا دی ہے۔ عمران خان صاحب پارلیمان میں جنگ ہار چکے ہیں۔ انہیں سپریم کورٹ سے بھی کچھ ملتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ انہوں نے جلسے جلوس کے ذریعے جنگ و جدل کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر کے بھی دیکھ لیا ہے دھونس دھاندلی اور دھمکیوں کی سیاست نے بھی کام نہیں دکھایا تو انہوں نے دھمکی آمیز خط کا بیانیہ چلا کر تحریک عدم اعتماد کو بیرونی سازش کا رنگ دینے کی حتمی کاوش کر کے بھی دیکھ لیا ہے لیکن معاملات نے ان کے حق میں جانے سے قطعی طور پر انکار کر دیا ہے اب ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے اور وہ ہے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ، جو کل بروز اتوار ہونے جا رہی ہے جس کا نتیجہ صاف ظاہر ہے اور وہ ہے عمران خان صاحب کی حکمرانی پر خطِ تنسیخ۔ عمران خان صاحب کل تاریخ کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ انہوں نے 20/22 سال تک اپنی خطابت کے جوہر دکھا کر حکمرانوں اور طرزِ حکمرانی پر تنقید کر کے نوجوانوں کو اشتعال دلا کر جو ایک حلقہ ارادت پیدا کیا تھا اور پھر اس کی بنیاد پر وہ ’’طاقتور‘‘ پروں کے سہارے اڑتے ہوئے 2018ء میں ایوانِ اقتدار تک پہنچے تھے وہ دور کل اختتام پذیر ہونے جا رہا ہے۔ عمران خان صاحب کا اقتدار تک پہنچنا اور پھر قلیل عرصے میں کلین بولڈ ہو کر رخصت ہونا، ہماری قومی تاریخ کا ایک المناک باب بننے جا رہا ہے۔ دیکھتے ہیں اس کے بعد عمران خان صاحب کیا کرتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں