واشنگٹن: امریکا اور ایران کے درمیان برف پگھلنے لگی ہے۔ امریکہ جوہری معاہدے پر مذاکرات کرنے کو تیار ہو گیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران سے براہ راست مذاکرات نہیں کریں گے۔ ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات آسٹریا میں 6 اپریل سے ہوں گے۔
دوسری جانب ایران نے امریکہ سے بلاواسطہ مذاکرات مسترد کر دیئے۔ ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ معاشی پابندیوں کا مرحلہ وار خاتمہ منظور نہیں۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ ایران ، پابندیاں منسوخ ہوتے ہی ان تمام اقدامات کو روک دے گا جو اس نے پابندیوں کی تلافی کے طور پر شروع کئے ہیں ۔ ایٹمی سمجھوتے میں امریکہ کے واپس آنے کے لئے کسی گفتگو یا مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ جس طرح سمجھوتے سے باہر نکلا ہے اسی طرح وہ ایٹمی سمجھوتے میں واپس آسکتا ہے اور جس طرح اس نے ایران کے خلاف غیر قانونی پابندیاں لگائی ہیں اسی طرح انہیں ختم کر سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے سرکاری ٹی وی پر خطاب میں آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ایران کے لیے امریکی وعدے قابل اعتبار نہیں ہیں اور ایران نے اوباما دور میں امریکا پر اعتماد کیا جبکہ وعدوں کی پاسداری کی لیکن امریکا نے اعتماد توڑا ۔
آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا تھا کہ امریکی صرف کاغذات میں پابندیاں ختم کرنے کا کہتے ہیں اور عملی طور پر ایسا نہیں کرتے اور امریکا پابندیاں مکمل ختم کرے ہم اس کی تصدیق کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر حقیقتاً ایسا ہوا تو ایران کو جوہری معاہدےکی پاسداری پر واپس آنے میں کوئی مشکل نہیں ہو گی۔
گزشتہ دنوں یورپی پالیسی مرکز میں خطاب کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا تھا کہ رواں سال جون میں ایران کے صدارتی انتخابات سے قبل امریکا کے پاس جوہری معاہدے سے متعلق ڈیل کرنے کا وقت ہے لیکن اور اس حوالے سے امریکا کو جلدی کرنا پڑے گی ورنہ دوبارہ معاہدے میں شامل ہونے کے لیے اگلے سال تک انتظار کرنا پڑے گا۔
جواد ظریف نے کہا کہ جوبائیڈن انتظامیہ نے ابھی تک ٹرمپ دور کے فیصلوں سے کچھ ہٹ کر نہیں کیا اور معاہدے میں واپسی سے متعلق ہمارا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ امریکا بات چیت سے قبل جوہری معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے ٹرمپ کی جانب سے ایران پر عائد پابندیوں کو ختم کرے ۔
یاد رہے کہ 2015 میں امریکا نے ایران کو جوہری ہتھیار سے روکنے کےلیے چند یورپین ممالک کے ساتھ ملکر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کیا تھا تاہم 2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یک طرف فیصلہ کرتے ہوئے معاہدہ ختم کردیا تھا اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی تھیں ۔