اسلام آباد: این اے 75 ڈسکہ سے مسلم لیگ ن کی امیدوار نوشین افتخار کا کہنا ہے کہ عدالت کا فیصلہ این اے 75 ڈسکہ کے عوام کی کامیابی ہے ۔ عدالت نے ایک مثال بنا دی کہ کوئی دھاندلی نہیں کرے گا۔ پاکستان میں آنے والے الیکشن میں کوئی دھاندلی نہیں کرسکے گا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ ہمارا نعرہ ہے ووٹ کو عزت دو، قائد نے یہ بھی سکھایا کہ ووٹ پر پہرا بھی دو۔ ڈسکہ کےلیے لڑ رہی تھی اور آگے بھی لڑوں گی۔ یہ کامیابی عوام کی کامیابی ہے، جنہیں ڈرایا گیا ان کی جیت ہے۔ لوگوں کو تنگ کیا گیا،ہراساں کیا گیا،میراپیغام ہے اب یہ نہ سوچا جائے۔شفاف الیکشن ہوں گے تو ہم جیت کر دکھائیں گے۔
قبل ازیں سپریم کورٹ نے پورے حلقے میں انتخاب کرانے کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست مسترد کردی ہے۔ دوبارہ انتخاب کرانے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔
کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد تحریک انصاف کے وکیل نے جواب الجواب دلائل دیےجس کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کیا اور 10 منٹ بعد مختصر فیصلہ سنادیا۔ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
قبل ازیں الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صورتحال سے واضح ہے کہ حلقے میں لیول پلینگ فیلڈ نہیں تھی۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ لیول پلینگ فیلڈ سے آپ کی کیا مراد ہے؟ ڈکشنری میں لیول پلینگ فیلڈ کا معنی دیکھیں کیا ہے ؟ آپ کے خیال میں ایک فریق کے لیے حالات سازگار تھے اور دوسرے کے لیے نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید ریمارکس دیے کہ آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ بدامنی تھی لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں تھی۔ آپ احتیاط کریں اور لیول پلیئنگ فیلڈ جیسے الفاظ استعمال نا کریں۔ اگر بدامنی تھی تو دونوں کے حالات ناسازگار تھے۔
انہوں نے کہا کہ ووٹرز کیلئے مقابلے کے مساوی ماحول کا لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ یہ کہنا درست نہیں کہ تمام پارٹیوں کو مقابلے کیلئے مساوی ماحول نہیں ملا۔۔ حلقے میں حالات خراب تھے یہ حقیقت ہے ۔ الیکشن کمیشن نے انتظامیہ کو سنے بغیر فیصلہ دیا۔ اس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ درست فرما رہے ہیں ہو سکتا ہے میرے الفاظ کا استعمال درست نا ہو۔
وکیل الیکشن کمیشن نے اپنے دلائل جاری رکھتے کہا کہ اگر ایک پولنگ سٹیشن کے باہر بدامنی تھی تو ایک نہیں بلکہ سو سے زائد پولنگ سٹیشن متاثر ہوئے ۔ عدالت کے ریکارڈ پر رکھے گئے نقشے سے واضح ہے کہ ایک بلڈنگ میں متعدد پولنگ سٹیشن تھے ۔ حلقے میں اس وقت کی صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ الیکشن ایکٹ کی متعدد شقوں کی خلاف ورزی ہوئی ۔الیکشن ایکٹ کی تمام شقوں پر عملدرآمد نہ ہو تو الیکشن کالعدم تصور ہوتا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آئی جی پنجاب اور دیگر حکام نے فون نہیں سنے ۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں منظم دھاندلی کا ذکر نہیں ۔