اسلام آباد : سپریم کورٹ میں این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ انتخاب سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل مکمل کرلیے ۔ تحریک انصاف کے وکیل نے جواب الجواب دلائل دیے۔جس کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صورتحال سے واضح ہے کہ حلقے میں لیول پلینگ فیلڈ نہیں تھی۔ جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ لیول پلینگ فیلڈ سے آپ کی کیا مراد ہے؟ ڈکشنری میں لیول پلینگ فیلڈ کا معنی دیکھیں کیا ہے ؟ آپ کے خیال میں ایک فریق کے لیے حالات سازگار تھے اور دوسرے کے لیے نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید ریمارکس دیے کہ آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ بدامنی تھی لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں تھی۔ آپ احتیاط کریں اور لیول پلیئنگ فیلڈ جیسے الفاظ استعمال نا کریں۔ اگر بدامنی تھی تو دونوں کے حالات ناسازگار تھے۔
انہوں نے کہا کہ ووٹرز کیلئے مقابلے کے مساوی ماحول کا لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ یہ کہنا درست نہیں کہ تمام پارٹیوں کو مقابلے کیلئے مساوی ماحول نہیں ملا۔۔ حلقے میں حالات خراب تھے یہ حقیقت ہے ۔ الیکشن کمیشن نے انتظامیہ کو سنے بغیر فیصلہ دیا۔ اس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آپ درست فرما رہے ہیں ہو سکتا ہے میرے الفاظ کا استعمال درست نا ہو۔
وکیل الیکشن کمیشن نے اپنے دلائل جاری رکھتے کہا کہ اگر ایک پولنگ سٹیشن کے باہر بدامنی تھی تو ایک نہیں بلکہ سو سے زائد پولنگ سٹیشن متاثر ہوئے ۔ عدالت کے ریکارڈ پر رکھے گئے نقشے سے واضح ہے کہ ایک بلڈنگ میں متعدد پولنگ سٹیشن تھے ۔ حلقے میں اس وقت کی صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ الیکشن ایکٹ کی متعدد شقوں کی خلاف ورزی ہوئی ۔الیکشن ایکٹ کی تمام شقوں پر عملدرآمد نہ ہو تو الیکشن کالعدم تصور ہوتا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آئی جی پنجاب اور دیگر حکام نے فون نہیں سنے ۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں منظم دھاندلی کا ذکر نہیں ۔