اگر کسی مسئلہ پر حکومت یہ موقف اپنائے کہ موت تو برحق ہے اور ہر مسلمان کو اس پر یقین رکھنا چاہیے ، تو ہمیں یہ دلیل فوری طور پر قبول کر لینی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے پیارے حکمرانوں کی خدمت میں یہ بھی عرض کر دینا چاہیے کہ اگر کبھی اپنے اللے تللوں ، کرپشن کے منصوبوں اور پروٹوکول کے مزے لینے سے فرصت ملے تو کچھ وقت اس بات کی منصوبہ بندی پر بھی دے دیں کہ عوام اپنی قدرتی موت تو مریں کم از کم بھوک، افلاس، غربت، مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت اور استحصال کا شکار ہو کر نہ مریں۔
چونکہ ملک کو اس وقت سیلابی صورتحال کی وجہ غیر معمولی حالات کا سامنا ہے اور اس وجہ سے مہنگائی کا ایک طوفان بھی برپا ہے لہٰذا اس صورتحال کا جائزہ بھی انہی حالات کے حساب سے لیا جانا چاہیے اور کچھ نہ کچھ گنجائش بھی دینی ہی چاہیے ۔ لیکن جب کسی بھی قسم کی کوئی ہنگامی صورتحال نہیں تھی اور حالات بالکل نارمل تھے تو صرف خوراک کے معاملات میں عام عوام کو کن حالات کا سامنا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک زرعی ملک میں یہاں کے زمیندار ، کاشتکار اور کسان گندم ، دالوں اور سبزیوں کی فصل کی فروخت کے نامناسب انتظامات اورمعقول ریٹ نہ ملنے کی وجہ سے ہمیشہ ہی پریشانی کا شکار رہتے ہیں۔ یعنی ایک طرف تو وہ آدمی مشکل کا شکار ہے جو فصل پیدا کر رہا ہے تو دوسری طرف مہنگائی، خوراک کی کمی اور عدم دستیابی کی وجہ سے اسی کا ہی بھائی بھوک سے مر رہا ہے۔ یعنی ایک طرف تو پیداوار کرنے والے کی کوئی راہنمائی اور سرپرستی نہیں ہے تو دوسری طرف بھوک اور افلاس کا شکار لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس ساری صورتحال میں حکومت، انتظامیہ یا حتیٰ کہ اپوزیشن کی سیاسی پارٹیاں کوئی بھی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی کبھی ان کاکوئی کردار سامنے آیا ہے۔ پچھتر سال میں ملک کو بربادی کی اس نہج تک پہنچائے جانے میں بلاشبہ کرپشن نے اہم ترین کردار ادا کیا ہو گا، لیکن کیا سیاسی عد م استحکام اور بے یقینی کی کیفیت کو بھی موردالزام نہیں ٹھہرانا چاہیے؟ وہ لوگ جو تھوڑا بہت بھی علم اور شعور رکھتے ہیں وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں شائد ہی کوئی ایسا وقت آیا ہو جب ملک فوجی آمریت یا مداخلت کے بغیر چل رہا ہو۔ لیکن پھر بھی تمام تر تباہی کاذمہ دار سیاستدانوں کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان خود بھی ایک دوسرے پر بہتان تراشی کرتے ہوئے اس تاثر کو تقویت بخشتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بے شمار قوموں نے انتہائی کم وقت میں ریکارڈ ترقی کی ہے۔ بلا شبہ اگر صحیح وقت پر صحیح فیصلے کیے جائیں، درست ٹریک کا انتخاب کیا جائے اور ملک سے وفاداری اور کمٹمنٹ کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا جائے تو معاشرے میں بہتری بھی آ جاتی ہے اور وہ ترقی بھی کر جاتا ہے۔
جب ترقی کرنے والی قوموں کا ذکر ہو تو اگر امریکہ اور یورپ کی مثالیں نہ بھی دی جائیں تو کوئی بات نہیں۔ چین، ملائشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈحتیٰ کہ بنگلہ دیش جیسے ممالک کو ایک نمونے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں کہ ابھرتی ہوئی اکانومیز کی فہرست میں پاکستان کی بھی اچھی خاصی پوزیشن ہوا کرتی تھی۔ لیکن پھر جانے کیا ہوا کہ بات بگڑتے بگڑتے اس حد تک پہنچ گئی کہ نوبت دیوالیہ پن تک آن پہنچی۔ آج حالت یہ ہے کہ دنیا کے دنیا کے 116 بھوک کا شکار ممالک میں ایٹمی طاقت پاکستان 92نمبر پر ہے، سری لنکا اور نیپال 65ویں نمبر پر اور بنگلہ دیش 78ویںنمبر پے ہیں۔ یعنی جس سری لنکا کے دیوالیہ پن کے سارے جہان میں چرچے ہیں، بھوک اور افلاس میں وہاں بھی حالات ہم سے بہتر ہیں۔
چونکہ ایمانداری کے لفظ کو ہمارے ہاں اس قدر کنفیوژ کر دیا گیا ہے کہ کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کسے کرپٹ سمجھیں اور کسے ایماندار جانیں۔ اس لیے ایمانداری کی بات کو فی الحال پس پشت ڈالتے ہوئے اگر صرف خلوص نیت ، وفاداری اور کمٹمنٹ سے عوام کی خدمت کرنے کی بات کی ہی جائے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہیں سے قوم کی ترقی کا راستہ نکلے گا۔
ہم نے دیکھا کہ کس طرح ہمسایہ ملک میں چند ہی سال پہلے ایک سیاسی پارٹی ابھری، اور اس نے پہلے دہلی میں اور پھر مشرقی پنجاب میں بغیر کوئی اضافی ٹیکس لگائے اور بھاری قرضہ لیے عوام کی زندگی کو آسان بنانے کی کامیاب کوشش کی۔ اب یہی سیاسی پارٹی بھارتی ریاست گجرات میں بھی انتخابی میدان میں ہے اور دہلی اور پنجاب کی طرح یہاں بھی ہر گھر کے لیے تین سو یونٹ تک مفت بجلی کا وعدہ تو کر رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ غریب آدمی کے لیے فری راشن، دس لاکھ نوکریاں اور تین ہزار روپے تک کے بے روزگاری الاﺅنس کا بھی اعلان کیا ہے۔
عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجری وال نے تو اب تک جو کہا ہے کر کے دکھایا ہے۔ امید ہے آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا۔
بھارت کی کسی ریاست میں یہ پھر پورے ملک میں بھی اگر عوام کو سہولت مہیا کی جا ری ہے تو ہم اس پر خوش بھی ہو سکتے ہیں اور اس کی تعریف بھی کر سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ذہنوں میں پیدا ہونے والے ایک معصومانہ سے سوال کا جواب جانے کون دے گا۔
سوال یہ ہے کہ اگر بھارت میں اروند کیجری وال اپنے عوام پر کوئی اضافی بوجھ ڈالے بغیر انہیں سہولیات مہیا کرنے کے لیے کچھ غیر معمولی اقدامات کر سکتا ہے تو ہم سب کے پیارے نواز شریف، شہباز شریف، عمران خان، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟