فرقہ‘ فرق سے ہے۔ اصل سے فرق‘ فرقے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ مکاتب و مسالک کا مختلف ہونا کچھ عیب نہیں۔ مکاتب ِ فکر دراصل دینی حقائق کوسمجھنے کے ہمارے اپنے اپنے شعوری درجے ہیں۔ دین کا اصل باطن ہے اور باطن اپنی اصل میں ایک تجریدی حقیقت ہے۔ اس تجریدی حقیقت تک پہنچنے کے لیے جس ذی شعور نے اپنی شعور کی کمند جہاں تک پھینکی،وہاں تک کا منظر اس کی فکر نے آنک لیا۔ ہمارے شعور کی آنکھ میں بے پناہ صلاحیت پنہاں ہوتی ہے۔ اس خفتہ صلاحیت کو ہم اپنے گروہی اور مسلکی تعصبات کی رنگین عینک پہننا کر خود ہی گہنا دیتے ہیں۔ ہم محبت اور تعصب میں فرق نہیں کر پاتے۔ جسے ہم محبت کا نام دیتے ہیں، بسا اوقات وہ کسی اور جگہ سے منافرت اور مفارقت کا ردّ عمل ہوتا ہے۔ ہم بہت آسانی سے تعصب کو محبت کا نام دے دیتے ہیں۔ اپنے تئیں اِس وہم اور زعم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ہم دین سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ حالانکہ دین سے محبت دراصل دین والے سے محبت ہے۔ دین کے وارثوں کو تج کرنے کے بعد ہم لاکھ تفسیریں لکھ دیں، سیکڑوں توجیہات گھڑ لیں، دین کی روح تک نہیں پہنچ سکتے۔ تعصب کا کاٹھ کباڑ اُٹھائے ہم دَر دَر بلکہ دَربدر گھوم رہے ہیں اور کوئی ذی شعور ہمارے لیے دروازہ نہیں کھولتا۔ تب اپنی مخالفت کو ہم دین کی مخالفت پر تعبیر کر لیتے ہیں۔ یہ دنیا ذی عقل لوگوں کی بات سنتی ہے۔ تعصب اور نفرت عقل کے دشمن ہیں۔ کہا گیا کہ غصہ عقل کو کھا جاتا ہے۔ تکبر اور عقل کا بھی ازلی بیر ہے۔ تعصب دراصل تکبر کی اجتماعی ہیئت ہی کا نام ہے۔ تعصب اورتکبر ایسے جرائم کا کفارہ ادا کرنے کے لیے طرح طرح کے ظاہری رسوم و رواج اور تراش خراش میں خود کو پیش کرنا ہماری مجبوری بن جاتی ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں ”فرقہ پرست‘ حق پرست نہیں ہوتا“۔
دین ہمیں باطنی جہت سے مخاطب کرتا ہے۔ اگر باطن درست ہو جائے تو ظاہر کا درست ہونا فوری اور فطری ہے۔ باطن سے ظاہر تک پہنچنا آسان ہے لیکن ظاہر سے باطن میں پہنچنا ایک کارِ دشوار ہے۔ ظاہر اور باطن میں فرق انتہائی ناپسندیدہ ہے۔ یہ فرق اگر قصداً کھڑا کیا جائے تو منافقت، اگر سہواً سرزد ہو رہا ہو تو کمزوری، کم علمی اور فرصتِ مہلت میں شمار ہوگا۔ دین کی روح تک پہنچنے کے لیے ہمیں باطن کی خوشبو تک پہنچنا ہوتا ہے۔ روح کے بغیر جسد ایک جامد بوجھ کے سوا کیا ہے؟ روح دَر آئے تو یہی بے جان جسم، جان دار ہے اور ہزاروں جانداروں کا کفیل ہے۔ روح سے دستبردار ہو کر ہم خود کو زندوں سے نکال کر مُردوں میں داخل کر رہے ہوتے ہیں۔ روح رب کے امر سے ہے۔ روح سے دستبرداری اولی الامر کی پہچان میں دشواری پیدا کرتی ہے۔ ظاہر پرست لوگ تخت پربراجمان
بادشاہوں کو ظلِ سبحانی کہنے اور سمجھنے پر مجبور ہیں۔ ظاہر کی خوگر آنکھ دین کو بھی محض ایک نظام کے نفاذ کے علاوہ کچھ اور وقعت نہیں دیتی، اس کے لیے اسلام ایک "ازم" ہے، اور اس کا مقابلہ وہ اپنے تئیں خاکی انسانوں کے بنائے ہوئے "کمیون ازم"،”سوشل ازم“ اور”کیپیٹل ازم“ سے کرتے رہتے ہیں، حالانکہ چہ نسبتِ ایں خاک را بہ عالمِ پاک!!! آسمانی احکام کا زمینی نظام سے کیا مقابلہ؟
روح کے تصور سے نا آشنا، باطنی جہت سے ناواقف کلمہ گو،حیات النبی ﷺ کا بھی قائل نہیں رہتا۔ اس کے نزدیک زندگی کا تصور انتہائی محدود ہے، شاید وہ کھانے پینے اور بازاروں میں چلت پھرت کو زندگی سمجھتا ہے۔ کسی نے مرشدی حضرت واصف علی واصف ؒسے پوچھا کیا حضور اکرمﷺ حیات ہیں؟ آپ ؒنے فرمایا اگر حضورﷺ زندہ نہیں ہیں تو پھر اللہ درود کس پر بھیج رہا ہے؟ باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول ہے کہ انسان جس چیز کا علم نہیں رکھتا اس کا دشمن ہو جاتا ہے۔ ہر علم کے اوپر ایک علم ہے۔ جہاں ایک صاحبِ علم کی حد ختم ہو جاتی ہے، وہاں کسی ”صاحب“ کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ باطن ظاہر کا قد ناپ لیتا ہے، بعض اوقات گردن تک ناپ لی جاتی ہے۔ ظاہر باطن کا قد کاٹھ نہیں دیکھ سکتا، ظاہر صرف اقرار کر سکتا ہے یا پھر انکار!! اقرار اسے باطن کا عکس عطا کرے گا، انکار اسے برعکس راستے پر لے جائے گا۔ سورۃ فاتحہ میں ہر نماز میں ہم یہ دعا مانگتے ہیں کہ ہمیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دے، صراطِ مستقیم کی نشانی یہ بتائی گئی کہ وہ انعام یافتہ لوگوں کا راستہ ہے، اور انعام یافتہ لوگ باطن شناس ہوتے ہیں۔
فرق، ظاہر میں رونما ہوتا ہے، باطن میں کوئی فرق نہیں۔ باطن کی روشنی لیزر لائیٹ کی طرح ہے جو سیکڑوں میل کے فاصلے کے بعد بھی بکھر کر مدھم نہیں ہوتی ، منتشر نہیں ہوتی۔ باطن سے منحرف ہر گروہ نے دین کے بیان پر ایک نیا فرقہ ایجاد کیا ہے۔ اصل سے فرق فرقہ پیدا کرتا ہے اور فرقہ تفرقہ پیدا کرنے کا سبب ہے۔ وحدتِ ملی سے انحراف تفرقہ ہے، اور تفرقہ فرقے سے پیدا ہوتا ہے۔ یہی حال شارحینِ دین و قرآن کی بابت دیکھا جا سکتا ہے۔ اپنے اسلاف سے منحرف بیانات اور تفاسیر ہمیں دین و قرآن کی اصل سے دور کر رہے ہیں۔ قرآن کریم کی سب سے افضل تشریح خود صاحبِ قرآن ﷺکی زبانِ مبارک سے ہے۔ اس کے بعد اہلِ بیت کی تفسیر معتبر ترین ہے کہ جن کے گھر میں قرآن اترتا ہے‘ وہ سب سے بہترین شارحینِ قرآن ہیں ……قولِ رسولؐ ”میں ؐ ؐ علم کا شہر ہوں اور علی ؑ کا اس کا دروازہ ہے“ اس پر شاہد ہے۔ ازاں بعد درجہ بدرجہ مقرب صحابہ اکرام، تابعین اور تبع تابعین کی تشریحات جاری و ساری ہیں۔ اگر کوئی مفسر چودہ صدیوں کی مسافت پھلانگ کر کوئی ایسی تفسیر بیان کرے جس کی سند ہمیں اسلاف سے میسر نہ آئے‘ وہ کسی فرقے کی وکالت تو ہو سکتی ہے ’حق پرستی کی طرف بڑھتا ہوا قدم ہرگز نہیں۔ حق کی نشانی یہ ہے کہ حق حق کو نہیں کاٹتا۔ مرشدی واصف علی واصف فرمایاکرتے کہ دین میں بات جتنی قدیم ہوگی‘ اتنی ہی معتبر ہوتی ہے۔
اہلِ مدرسہ میں سے کسی نے کہا کہ”مودۃ ذی القربیٰ" سے مراد اہلِ بیت نہیں۔ راقم متعجب و متفکر ہوا، بچپن سے اس آیت کو در شانِ اہلِ بیت ہی سنا اور سمجھا گیا۔ کتابوں کی پڑتال شروع ہوئی، ایک جید مفتی صاحب سے رابطہ کیا، اپنی اصلاح مقصود تھی۔مفتی صاحب نے حدیث مبارکہ کا حوالہ دے دیا۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓکی تفسیر سامنے کر دی۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؒ قرآن کے سب سے پہلے مفسر ہیں، انہیں اس منصب پر خود رسولؐ اللہ نے فائز فرمایا۔ ایک صحابیئ رسول کی تفسیر کے بعد اپنی ذہنی تفسیر پر اصرار‘ دراصل انکار کے زمرے میں آتا ہے۔ لوگ اپنے مدرسے کا ساتھ دیتے ہیں‘ حق کا ساتھ نہیں دیتے۔ حق کا متلاشی دین کی اصل کی تلاش میں ہوتا ہے،اس کا فکر اپنے فرقے کا اسیر نہیں ہوتا۔وحدتِ ملی کے پیام بر حضرتِ اقبال ؒ نے یوں ہی تڑپ کر کہا ہو گا
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاالٰہ الا اللہ