لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے شہریوں کو غیر قانونی طور پر زیر حراست میں رکھنے والے پولیس افسران کیخلاف کارروائی کا حکم دیدیا، عدالت نے قرار دیا کہ پولیس گرفتار کرنےکےاختیار کا ناجائز استعمال کر رہی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ میں امریکی، بھارتی اور دیگر ممالک عدالتی فیصلوں کے حوالے بھی دیئے ہیں۔
تحریری فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ پولیس کیخلاف مسلسل شکایات کی بڑی وجہ غیر قانونی اور من مانی گرفتاریاں ہیں، کسی بھی اتھارٹی کے اختیار کے ناجائز استعمال کو برداشت نہیں کیا جا سکتا، آن لائن سسٹم کے نفاذ کے بعد پولیس کا روزنامچہ رجسٹر میں ملزموں کا اندراج چھوڑنا غلط ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ معاشرے میں ایک طرف امن وقانون کے نفاذ کیلئے تناؤ دوسری طرف افراد اور ملزموں کے بنیادی حقوق ہیں، پولیس کے پاس کسی کو بھی غیر قانونی حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
عدالت عالیہ نے کہا ہے کہ آئی جی پنجاب پولیس افسران کی عالمی معیار کے مطابق فرائض کی انجام دہی کو یقینی بنائیں۔ ملزم کیخلاف قابل گرفتاری مواد دستیاب ہونے تک ملزم کو گرفتار نہیں کرنا چاہیے۔ ضابطہ فوجداری کے تحت پولیس حراستی ملزم کی گرفتاری کی وجہ اس کے لواحقین کو بتانے جبکہ اس کے وکیل یا رشتہ داروں تک رسائی دینے کی بھی پابند ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ باسٹھ پولیس کی زیادتیوں کیخلاف زبردست دفاع ہے۔ فیصلے میں ویانا اعلامیے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جمہوریت کی ترقی کیلئے انسانی حقوق پر بلا امتیاز عمل اور انصاف کی فراہمی ناگزیر ہے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کا قانون ریاستوں کو شہریوں کی آزادی اور سلامتی کویقینی بنانے کا پابند بناتا ہے۔
لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ پاکستان نے 7 عالمی انسانی حقوق کنونشنز کی توثیق کر رکھی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے قانون نافذ کرنیوالے حکام کیلئے بنیادی انسانی حقوق کے 10 معیار پر دستاویز جاری کر رکھی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 10 کسی بھی شہری کو اس کی گرفتاری کی وجوہات بیان کئے بغیر گرفتار کرنے سے روکتا ہے۔ کسی بھی شہری کو مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر گرفتار یا حراست میں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ شہری بشیر احمد نے اپنے بیٹے عدیل کی پولیس سے بازیابی کیلئے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ بیلف نے صفدر آباد شیخوپورہ تھانے سے مغوی عدیل کی غیر قانونی حراست کی رپورٹ پیش کی تھی۔