واشنگٹن: امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ طالبان نے امریکا کا ساتھ دینے والے شہریوں کے پُرامن انخلا کا وعدہ کیا ہے اور 31 اگست کی ڈیڈلائن کا مقصد محفوظ انخلا یقینی بنانا تھا اگر ہم ڈیڈ لائن کے بعد رکتے تو تناو میں مزید اضافہ ہو سکتا تھا جبکہ میرے اقتدار میں آنے سے پہلے طالبان سے معاہدہ ہو چکا تھا اور افغانستان سے انخلا کا منصوبہ پہلے سے تیارشدہ تھا۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد جو بائیڈن نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا امریکا کی طویل ترین افغان جنگ کاخاتمہ ہوگیا اور افغانستان میں آئی ایس آئی ایس کی کمرتوڑ دی جبکہ افغانستان سے انخلا کا فیصلہ میں نے کیا اور یہ انخلا 31 اگست سے پہلے امریکیوں کی زندگی کی حفاظت کے لیے کیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکی فوجیوں نے 17 روز میں ہزاروں افراد کو افغانستان سے نکالا جبکہ کابل سے ہزاروں فوجیوں اور شہریوں کے انخلا کا خطرناک چیلنج پورا کیا جبکہ طالبان نے امریکا کا ساتھ دینے والے شہریوں کے پُرامن انخلا کا وعدہ کیا ہے اور 31 اگست کی ڈیڈلائن کا مقصد محفوظ انخلا یقینی بنانا تھا اگر ہم ڈیڈ لائن کے بعد رکتے تو تناو میں مزید اضافہ ہو سکتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا اولین فرض ہے کہ امریکا کا دفاع کیا جائے اور اب امریکا کو 11 ستمبر جیسے خطرے کا سامنا نہیں ہے، ہم نے افغانستان میں داعش کی کمر توڑ دی، ہماری ہزاروں افواج اور اربوں ڈالر خرچ ہوئے ہیں جبکہ اب دہشت گردی دیگر ممالک تک پھیل رہی ہے ہمیں اس کا مقابلہ بھی کرنا ہوگا۔
انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ طالبان کی حکومت کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ ہم طالبان کے الفاظ پر یقین نہیں کریں گے ہم ان کے عمل کو دیکھیں گے۔ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ سابق افغان صدر اشرف غنی ملک سے فرار ہوجائے گا اور افغانستان سے انخلا کے فیصلے کی پوری ذمہ داری لیتا ہوں اور افغانستان سے انخلا کا فیصلہ سول اور عسکری قیادت نے مشترکہ کیا تھا جبکہ میں نے افغانستان چھوڑںے کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے چھ ہزار فوجی کابل ایئرپورٹ بھیجے جنہوں امریکی اور غیر ملکی سفارت کاروں، امریکی شہریوں اور افغان باشندوں کا باحفاظت انخلا کا چیلنج مکمل کیا، میں کامیاب انخلا پر سفارت کاروں اور فوجیوں کا شکر گزار ہوں۔
امریکی صدر نے کہا امید ہے طالبان اپنے وعدے پورے کریں گے کیونکہ سلامتی کونسل نے بھی طالبان کو وعدے پورے کرنے کی تاکید کی جبکہ جو بھی افغانستان سے جانا چاہے اس کو اجازت ہونی چاہیے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ ہم نے ایک لاکھ افغانوں کو فضائی پروازوں کے ذریعے افغانستان سے نکالا ہے جو تاریخ میں پہلی مرتبہ ممکن ہوا ہے، یہ بہت مشکل اور خطرناک مشن تھا لیکن ہم نے اسے مکمل کیا۔ ہم 90 فیصد امریکی شہریوں کو افغانستان سے نکال چکے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ افغانستان میں اب بھی سو سے 200 امریکی شہری موجود ہیں جو افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں ہم ان کی مدد کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ جو امریکا پر حملہ کرنا چاہتے ہیں اور ان کے اتحادیوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں وہ سن لیں کہ ہم آرام سے نہیں بیٹھے ہوئے، ہم زمین کے آخری کنارے تک ان کا مقابلہ کریں گے اور میں اپنے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اب افغان جنگ ختم ہوچکی ہے اور میں نے اس جنگ کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا جبکہ 20 سالہ طویل جنگ کے بعد میں نے اگلی نسل کو افغان جنگ میں جھونکنے کا انکار کر دیا تھا اور اب میں نے اس پر عمل کر دکھایا ہے۔
امریکی صدر نے افریقہ میں شدت پسند تنظیم الشباب اور دیگر ممالک میں داعش کا بھی ذکر کیا کہ ان سے امریکا کو بچایا جائے گا جبکہ انہوں نے روسی سائبر حملوں، ایٹمی پھیلاؤ اور چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو بھی امریکا کے لیے چیلنج قرار دیا جسے انہوں نے اکیسویں صدی کے بدلتے ہوئے چیلنجز قرار دیا۔
خیال رہے کہ افغانستان کی سرزمین سے امریکا سمیت تمام اتحادی ممالک کی فوجوں کا انخلا مکمل ہو چکا ہے۔ 31 اگست کی ڈیڈ لائن پر عمل کرتے ہوئے امریکی فوج کا آخری جہاز بھی اپنے فوجیوں کو لے جا چکا ہے۔ اس وقت کابل ایئر پورٹ کا مکمل کنٹرول طالبان نے سنبھال لیا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کی 20 سالہ طویل جنگ کے اختتام کے بعد افغان سرزمین سے ہمارا آخری فوجی تک نکل چکا ہے۔ پیر اور منگل کی درمیانی شب کابل سے آخری امریکی سی 17 طیارہ روانہ ہوا جس سے امریکا کی طویل ترین جنگ اپنے اختتام کو پہنچی۔ امریکی جنرل فرینک میکنزی نے کہا کہ افغان سرزمین سے ایک لاکھ تئیس ہزار شہریوں کا انخلا یقینی بنایا گیا۔
ادھر پنجشیر میں طالبان نے مزاحمت کاروں پر حملہ کر دیا اور دو طرفہ فائرنگ کے دوران 8 طالبان ہلاک اور 8 زخمی ہو گئے جب کہ قومی مزاحمتی فورس کے دو جنگجو بھی مارے گئے۔
پنجشیر میں احمد مسعود کے ساتھ نائب صدر امر اللہ صالح سمیت اشرف غنی کی کابینہ کے سابق وزرا بھی موجود ہیں اور طالبان کے خلاف مزاحمت دکھا رہے ہیں۔ اشرف غنی کے وزیر دفاع جنرل بسم اللہ محمودی نے ٹویٹ میں طالبان جنگجوؤں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ طالبان کی جانب سے پنجشیر میں جھڑپ اور جانی نقصان کی تردید یا تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
پنجشیر واحد صوبہ ہے جہاں طالبان تاحال اپنی عمل داری قائم نہیں کر سکے۔ سابق شمالی اتحاد کے گڑھ پنجشیر میں سوویت یونین کے خلاف جنگ کے کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے طالبان کی حکومت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
احمد مسعود کے انکار پر طالبان جنگجو پنجشیر کی سرحدوں پر کھڑے ہو گئے اور ایسی اطلاعات بھی آئیں کہ طالبان نے خوراک اور اسلحے کی سپلائی لائن کاٹ دی تھی جب کہ طالبان رہنما مذاکرات کے لیے بھی پہنچے تھے جو بے نتیجہ ثابت ہوئے۔
مذاکرات کے بے نتیجہ ثابت ہونے پر طالبان نے پنجشیر پر حملہ کردیا تاہم احمد مسعود کی قیادت میں قومی مزاحمتی فورس نے بھرپور مقابلہ کیا۔ پنجشیر افغانستان کے 39 صوبوں میں سے واحد صوبہ بن گیا ہے جہاں طالبان کو مزاحمت کا سامنا ہے۔ پنجشیر میں پہلی جھڑپ 23 اگست کو ہوئی تھی جس میں دونوں جانب سے بھاری جانی و مالی نقصان کے متضاد دعوے کیے گئے تھے۔