آمر کے بنائے گئے کالے قوانین کا خاتمہ ضروری ہے ، میراعدالتی جنگ سے کوئی تعلق نہیں : بلاول بھٹو

 آمر کے بنائے گئے کالے قوانین کا خاتمہ ضروری ہے ، میراعدالتی جنگ سے کوئی تعلق نہیں : بلاول بھٹو

کوئٹہ : چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آمر کے بنائے گئے کالے قوانین کا خاتمہ ضروری ہے ،آئینی عدالت کو نہ ماننے والا وکالت اورسیاست چھوڑ دے۔

بلوچستان ہائیکورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ  ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، ڈسٹرکٹ بار، پی ایل ایف کا شکر گزار ہوں، موقع دیا گیا ہے کہ بلوچستان کے وکلا سے ایک بار پھر بات کروں، آج کل جو وکلا کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں میرا اور وکلا کا لگاؤ کیا ہے ان کو کیا پتہ، یہ نہ سمجھیں کہ میں لاہور یا اسلام آباد سے آیا ہوں، میں آپ میں سے ہی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ہم خونی جدوجہد نسلوں سے کرتے آرہے ہیں، یہ کسی بندوق کا انقلاب نہیں رہا، کوئی چیز ایک دن یا ایک سال میں نہیں ہوئی ۔

بلاول بھٹو کاکہنا تھا کہ آئین کی بحالی شہید بینظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد کا مقصد تھی، شہید بینظیر بھٹو آئین کی بحالی کی جدوجہد 30سال کرتی رہیں، 1973کے آئین کو ہم نے بحال کیا،چارٹر آف ڈیموکریسی کے ذریعے، شہید ذوالفقار علی بھٹو کا پھانسی پر چڑھایا گیا، میرے اور دوسری جماعتوں کے کارکنان کو نشانہ بنایا گیا۔

 ان کا کہنا تھا کہ افتخار چودھری بی سی او والا جج تھا وہ دونوں ہاتھوں سے سیلوٹ کرتے تھے ، میراعدالتی جنگ سے کوئی تعلق نہیں ، آپ کمرے میں بیٹھ کرایک دوسرے سے سیٹنگ کرتے ہیں۔ فوجی عدالتوں کا تصور بار بار کیوں آتا ہے ؟ نظام انصاف میں تھوڑے نہیں بہت مسائل ہیں،عدالتی نظام دہشتگردوں کو سزا نہیں دے سکتا، عدلیہ سے کوئی سوال کریں تو وہ برا مناتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس منصور علی شاہ میرے لیے سب سے محترم ہیں۔ مجھے کوئی مسئلہ نہیں ، ان دو ججوں میں کوئی بھی آ کر آئینی عدالت میں بیٹھے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری، جنرل کیانی اور جنرل پاشا کے درمیان مک مکا ہوا کہ اگر چارٹر آف ڈیموکریسی نافذ ہو گا اور اگر 1973 کا آئین اصل حالت میں بحال کیا گیا تو اسٹیٹس کو کا کیا بنے گا؟ جمہوریت پر ہمارے کنٹرول کا کیا ہو گا؟۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ آج برے حالات ہیں ، مگر پہلے تو اس سے بھی برا حال تھا، ہمیں افتخار چودھری یاد ہے، افتخار چودھری نے مشرف کو اجازت دی کہ آئین میں ترمیم آپ نے کرنی ہے، آپ لوگ جو ہیں اسمبلی بھیجتے ہیں وہ تو بس ایسے ہی بھیجتے ہیں، پورے پاکستان میں یہ مسائل ہیں۔

چیئرمین پی پی بلاول بھٹو نے کہا کہ آپ ہی بتائیے کہ توہین عدالت کا مطلب کیا یہ ہے کہ اگر کوئی کسی جج کے خلاف کچھ بولے تو آپ کو زندگی بھر کے لیے سزا ملے؟۔ کیا یہ اظہار رائے کی آزادی ہے؟۔ کیا اظہار خیال کی آزادی یہ ہے کہ آپ کوئی فیصلہ دے دیں، آپ وزیراعظم کو نکال دیں، آپ اٹھارہویں اور انیسویں ترمیم میں تبدیلی کریں اور ہم چوں تک نہ کر سکیں؟۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اگر آئین کہے کہ آئینی عدالت ہوگی تو آپ مانیں گے، عدالت کا کام آئین اور قانون پر عملدرآمد کرانا ہے ، ہم نے 30 سال کی جدوجہد کےبعد یہ فیصلہ لیا کہ آئینی عدالت بنے، ملک میں کسی کو مقدس گائے نہیں بننا چاہیے۔ 

مصنف کے بارے میں