تعلیم کے بارے میں بہت کچھ لکھنے کے باوجود، میں اس لئے اس موضوع پر قلم اٹھانے پر خود کو مجبور پاتی ہوں کہ نت نئے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ کوووڈ - 19 نے زندگی کے مختلف شعبوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ لیکن سب سے ذیادہ، دور رس اور مضر اثرات تعلیم کے شعبے پر پڑے ہیں۔ بلکہ ان اثرات کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ پہلی آزمائش تو یہ آن پڑی کہ تعلیمی اداروں کو بند کرنا پڑا۔ پھر دنیا کی دیکھا دیکھی ہمیں بھی آن لائن تعلیم کے تجربے سے گزرنا پڑا۔ تدریس سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر میں کہہ سکتی ہوں کہ یہ تجربہ اگر کامیاب ہوا بھی ہے تو اس کا تناسب نہایت ہی کم ہے جسے بیس پچیس فی۔صد سے زیادہ نہیں کہا جا سکتا۔ اسباب بے شمار ہیں۔ سب سے بڑا سبب تو یہ ہے کہ پورے ملک میں کسی بھی سطح کے اساتذہ کو آن۔لائن تدریس کی تربیت نہیں تھی۔ یہی حال طلبہ کا تھا۔ پھر طلباء اور اساتذہ کے درمیان رابطوں میں بھی بیسیوں کمزوریاں تھیں۔ ہزاروں یا شاید لاکھوں کے پاس ٹیلی فون، لیپ ٹاپس، انٹرنیٹ یا وائی فائی کی سہولتیں نہیں تھیں۔ نرسری کے بچوں سے لے کر ہائر ایجوکیشن لینے والے طلباء و طالبات تک آن۔لائن کا یہ سلسلہ کتنا مفید ثابت ہوا اور اس سے مستفید ہونے والے طلبہ، عام رسمی تعلیم کی نسبت کتنے کمزور اور کم تر رہے، اس کا اندازہ لگانے کے لئے کچھ وقت لگے گا۔ پھر رنگا رنگ امتحانات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان امتحانات کے نتائج بھی موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ خیبر پختونخواہ کے ایک بورڈ کے نتائج تو سوشل میڈیا ہی نہیں، ہر جگہ مذاق کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ کئی طلباء کو گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر ملے ہیں، جو عقل تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ بلکہ بتایا جاتا ہے کہ ایک طالب علم نے تو گیارہ سو میں سے 1150 نمبر حاصل کر لئے ہیں۔ ایف۔اے، ایف۔ایس۔سی پاس کرنے والے یہ طلبہ و طالبات جب اعلیٰ تعلیم کے اداروں، بالخصوص میڈیکل اور انجینئرنگ کے اداروں میں جائیں گے تو پتہ نہیں ان پر کیا گزرتی ہے۔ نہ جانے کتنے لائق اور ذہین طلبہ کسی نہ کسی وجہ سے داخلے سے محروم رہ جائیں گے اور جانے کتنے کم معیار کے حامل بچے داخلہ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ادھر میڈیکل کے داخلے کے لئے پاکستان میڈیکل کمیشن کے نئے قواعد وضوابط نے طوفان کھڑا کر رکھا ہے اور پورے ملک میں نوجوان سراپا احتجاج ہیں۔
ا ن مسائل سے ذرا ہٹ کر، میں ایک نہایت اہم موضوع کا ذکر کرنا چاہتی ہوں جس کا تعلق تعلیم یافتہ نوجوانوں کے حصول روزگار سے ہے۔ حالیہ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے ملک بھر کے نوجوانوں میں پڑھے لکھے نوجوانوں کا تنا سب بے روز گار نوجوانوں سے زیادہ ہے۔ غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہر نوجوان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی ڈگری کے مطابق کوئی باعزت روزگار حاصل کرئے خواہ وہ کسی چھوٹے دفتر کا ادنیٰ کلرک ہی بن جائے۔ جوں جوں تعلیم کا گراف اوپر جاتا ہے، نوجوانوں کی توقعات اور خواہشات بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ کئی وجو ہات کی بنا پر نوجوانوں (خاص طور پر کم پڑھے لکھے، بے ہنر اور متوسط تعلیم رکھنے والوں) کی بھاری تعداد سرکاری نوکری چاہتی ہے۔ ادھر سرکار کی حالت یہ ہے کہ وہ تنخواہوں اور پنشنوں کے بھاری بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور اس کے لئے نئی نوکریاں دینا نا ممکن ہو چکا ہے۔ ملک کی اقتصادی صورتحال بھی ٹھیک نہیں۔ سرکار کے زیر انتظام چلنے والے اکثر ادارے خسارے میں جا رہے ہیں، سو نئی نوکریاں کہاں ملیں گی؟
اصل اور بنیادی مسئلہ ہماری تعلیم کی بے سمتی کا ہے۔ ہمارے منصوبہ سازوں کے پاس اس مسئلے پر توجہ دینے اور اس کا کوئی حل نکالنے کی فرصت ہی نہیں۔ ہر سیاسی حکومت کی طرح موجودہ حکومت کی تعلیمی ترجیحات پر بھی سیاسی نعرہ بازی کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ اس کے لئے نظام تعلیم کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے " یکساں نصاب تعلیم"۔کسی کو خبر نہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں کی فیکٹریوں سے کس طرح کے نوجوان نکل رہے ہیں اور ان کی کھپت کہاں ہو سکتی ہے؟ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم کا عمل کسی سند یا ڈگری سے نہیں، کسی ایسے فن، کام، مہارت یا ہنر مندی کے ساتھ جڑا ہے جس کی معاشرے کو ضرورت ہے۔ جس کی ملکی صنعت کو ضرورت ہے، جس کی ملکی اقتصادی مشینری کو ضرورت ہے۔ جس کی عالمی منڈی میں ضرورت ہے۔ یہ ایک سیدھا سادہ مارکیٹ کا اصول ہے جسے معاشیات کی زبان میں طلب اور رسد (demand and supply) کہتے ہیں۔ اگر رسد، طلب کے مطابق ہو تو معاملہ ٹھیک رہتا ہے۔ اگر رسد ایسی ہو جسکی مارکیٹ میں طلب موجود نہیں تو وہ رلتی رہے گی اور اس کا کوئی خریدار نہ ہو گا۔ اگر طلب زیادہ ہو اور رسد کم ہو تو رسد کی قیمت بڑھتی چلی جائے گی۔ اس اصول کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ اگر ہمارے تعلیمی ادارے ایسے نوجوان پیدا کرتے رہیں گے جن کی معاشرے کی مشینری کو ضرورت ہی نہیں تو بھٹکتے پھریں گے۔
جہاں میٹرک پاس کلرک کی ایک اسامی خالی ہو گی وہاں پچاس ہزاردرخواستیں آجائیں گی جن میں ہزاروں ایم۔اے پاس، ہزاروں بی۔اے کی ڈگری رکھنے والے ہوں گے۔ اگر سوسائٹی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی فروغ پا رہی ہے، اگر جدید صنعتیں لگ رہی ہیں، اگر گاڑیاں بنانے کے کارخانے لگ رہے ہیں، اگر کمپیوٹر سازی کا کام شروع ہو گیا ہے، اگر تعمیراتی سیکٹر کو ہنر مند الیکٹریشنز، پلمبرز اور معماروں کی ضرورت ہے تو غور فرمائیے کہ کسی مضمون میں سادہ ایم۔اے کر لینے والا نوجوان کہاں جائے گا؟ ایک سروے کے مطابق ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں پیشہ وارانہ مہارت اور ہنر رکھنے والے نوجوانوں کی تعداد صرف 6 فیصد ہے۔
کسی کو پرواہ نہیں کہ تعلیم ایک ایسے بحری جہاز کی شکل اختیار کر گئی ہے جس کی کسی منزل کا پتہ ہے نہ اس کے رخ کا کسی کو اندازہ ہے۔ بس وہ لہروں اور ہواؤں کے رحم و کرم پر ہے۔ میرے خیال میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تعلیم کی بے سمتی ایک گھمبیر مسئلہ بنتی جا رہی ہے لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کسی کو اس مسئلے کی کوئی فکر نہیں۔