پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے لیڈرز پی ٹی آئی کی حکومت کو اکثر انتباہ کرتے رہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت اتنا ہی احتساب کرے جتنا وہ خود برداشت کر سکے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ بھی احتساب نہ کریں اور ہم بھی آپ کے کارناموں پر آنکھیں بند کئے رکھیں گے۔ بصورتِ دیگر کڑا حتساب کیا جائے گا۔،یہ کیسی ڈیل ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے جو بھی حکومت آئے وہ ماضی میں ہونے والی بے ضابطگیوں کو منظرِ عام پر لائے اس کے لئے خواہ اسے کسی بھی قسم کی قربانی دینا پڑے۔ ان کے اس قسم کے بیانات سے معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت پچھلے سیاستدانوں کو صرف اس لئے قانون کے کٹہرے میں نہ لائے تاکہ کل وہ اقتدار میں آ کر ان کو تحفظ فراہم کریں؟ ہمارے سیاستدانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ ماضی سے کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں واحد ملک جس کی برسرِ اقتدار حکومتوں کو کرپشن کی وجہ سے اقتدار سے معزول ہونا پڑا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سیاستدان اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کرتے اور اس سنگین مسئلے کو ختم کرنے کے لئے کوئی واضح پالیسی بناتے اور جن لوگوں نے قومی دولت کو لوٹا، بے ضابطگیوں اور بد عنوانیوں کو پروموٹ کیا، حکومتی وسائل کا غلط استعمال کیا وہ لوگ کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں، ان کے گرد احتساب کا شکنجہ کسا جانا چاہئے کیونکہ کرپشن معاشرے میں ایک ایسا ناسور ہے اگر من حیث القوم ہم نے اجتماعی طور پر اسے جڑ سے نہ اکھاڑ پھینکا تو آنے والی نسلیں پاکستان کی استحکامیت، سالمیت اور بربادی کی ذمہ دار سیاستدانوں کو سمجھیں گے۔
وطنِ عزیز کی بقا کے لئے ایسے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرنا ہو گاجن کے ذریعے ذمہ دار عناصر خواہ وہ بیورو کریٹ ہوں یا عوامی نمائندے، صنعتکار ہوں یا سرمایہ دار یا کسی بھی اعلیٰ عہدے پر فائز کیوں نہ ہوں انہیں بلاامتیاز کیفرِ کردار تک پہنچایا جا سکے اور عدالتیں جن عناصر کو قصور وار ٹھہرائیں انہیں قید اور جرمانہ کے ساتھ ان کا اخلاقی، سماجی اور مذہبی لحاظ سے بھی محاسبہ کیا جانا چاہئے کیونکہ ہر مذہب اور نظام نے معاشرے میں ایک مئوثر نظامِ احتساب پر زور دیا ہے اس کے بغیر کسی ریاست کا وجود قائم نہیں رہ سکتا ہے۔ قوموں کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جس قوم نے بھی احتسابی عمل کو نظر انداز کیا وہ تباہی سے دوچار ہوئی یہی وجہ ہے کہ ریاست کے چار اہم ستونوں میں مقننہ اور انتظامیہ کو اولیت حاصل ہے مقننہ قانون وضع کرتی ہے اور انتطامیہ اس پر عمل درآمد کا اہتمام کرتی ہے۔ اگر کوئی شخص کوئی ایسی حرکت کرتا ہے جس سے معاشرے میں کسی برائی کو فروغ ملتا ہے اور معاشرے کے افراد کی حق تلفی ہوتی ہے، قومی خزانے کو نقصان پہنچتا ہے، معاشرے کی اخلاقی اقدار پر زد پڑتی ہے، قومی صحت کا معیار متاثر ہوتا ہے تو ایسا شخص اس بات کا مستحق ہے کہ اسے گرفت میں لایا جائے وہ خواہ کتنا بھی بااثر کیوں نہ ہو اور ملکی قوانین کے مطابق اسے سزا دی جانی چاہئے تا کہ آئندہ معاشرے میں برائی کا راستہ روکا جا سکے۔ہمارے ماضی کے تمام حکمرانوں نے اپنے اپنے دورِ حکومت میں اس اہم بات کو نظر انداز کیا۔ ابن الوقت اور سامراجی قوتوں کے پٹھوؤں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے انہیں نہ صرف پلاٹوں سے نوازا بلکہ انہیں مختلف قسم کی ناجائز طریقے سے مراعات بھی دیں، حمایت حاصل کرنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کئے۔
پاکستان میں بالعموم سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کا کردار بڑی حد تک متنازع اور قابلِ اعتراض حد تک غلط رہا ہے ہر آنے والے نے قوم سے بے شمار وعدے کئے انہیں سبز باغ دکھائے اور ملک سے بے روزگاری، کرپشن، رشوت، سفارش، بے انصافی اور لاقانونیت ختم کرنے کا وعدہ کیا لیکن جب یہ لوگ برسرِ اقتدار آ گئے تو صرف پلاٹوں اور پرمٹوں کی سیاست میں الجھ کر رہ گئے جب کہ عام آدمی کا کوئی بھی مسئلہ حل نہ ہو سکا۔ بے روزگاری کا عفریت تیزی سے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو نگل رہا ہے لیکن افسوس کہ بے روزگاری کے سدِ باب کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار نہیں کیا گیا۔ بلکہ آج کی نوجوان نسل پاکستان کے شہروں میں مساجد اور امام بارگاہوں میں خونریزی، دہشت گردی اور بربریت دیکھ کر حکومتِ وقت اور سیاستدانوں سے سوالیہ انداز میں پوچھ رہی ہے کہ ہم نے 73سال میں کیا کھویا کیا پایا ہے، ہم نے صرف کھویا ہی کھویا ہے۔ اخلاقی قدریں ختم ہو چکی ہیں، عزت، غیرت، دیانت داری اور حب الوطنی کو پامال کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ 35سال میں سیاستدانوں نے جب بھی اقتدار حاصل کیا لوٹ کھسوٹ اور اقربا پروری سے قومی اداروں کو نقصان پہنچایا۔ ترقیاتی اداروں کے رہائشی پلاٹوں کو سستے داموں حاصل کر کے کمرشل بنیادوں
پر فروخت کر کے کروڑوں روپے حا صل کرنا، قومی صنعتی منافع بخش اداروں کو رشوت میں کروڑوں روپے حاصل کر کے پرائیویٹ سیکٹر میں فروخت کرنا ان کا طرہئ امتیاز رہا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں جہاں کہیں بھی مختلف طرز کے جمہوری نظام قائم ہیں ان میں ایک بات مشترک ہے کہ وہاں کی قیادتیں لمحہ بہ لمحہ اس امر کا اہتمام کرتی ہیں کہ ان کی قوم پہلے سے زیادہ با صلاحیت اور خوشحال ہو جائے اور ان کے ملک کا حال و مستقبل اپنے ماضی کے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور ترقی یافتہ بن جائے۔ ان کی تمام قائدانہ صلاحیتیں اسی غرض کے لئے وقف ہوتی ہیں۔ وہ ایک زوال پذیر قوم کے نہیں بلکہ اپنی ترقی کے ذریعے دنیا میں نام پیدا کرنے والی قوم کے لیڈر کہلانا پسند کرتے ہیں۔ وہ اپنی بہتری بھی چاہتے ہیں تو اسے ملک کی اجتماعی بہتری میں تلاش کرتے ہیں۔ وہ ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ہر گز ترجیح نہیں دیتے۔ اس طرزِ عمل کے مقابلے میں جب ہم اپنے ملک کے سیاسی لیڈروں کو دیکھتے ہیں تو وہ اپنے ذاتی مفاد سے آگے دیکھنے کی تکلیف ہی نہیں کرتے ہر سطح پر جو کچھ حاصل کر سکتے ہیں اسے ہڑپ کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ سیاسی لیڈروں کے اس طرزِ عمل کے نتیجے میں ہماری قوم کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے اور ملک سامراج اور اندرون ملک اجارہ داریوں و لوٹ کھسوٹ کی آماجگاہ بنتا جا رہا ہے۔
پاکستان جہاں نظام میں خرابیاں موجود ہیں وہاں ایک بڑا مسئلہ بیوروکریسی اور سیاستدانوں کا رویہ بھی ہے اور یہی تمام برائیوں کی جڑ ہے کہ آج تک یہ رویے بہتر نہیں ہو سکے جس کے پاس اختیار آ جاتا ہے اس کی سوچ ہی بدل جاتی ہے اور وہ سب کچھ اپنے آپ کو سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ اب جب کہ قومی احتساب بیورو کا ادارہ بڑا فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ جس کا بنیادی مقصد ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کے لئے نہ صرف اقدامات کئے جائیں بلکہ بد عنوان عناصر سے لوٹی ہوئی رقم برآمد کر کے قومی خزانے میں جمع کرائی جائے اور قصورواروں کو عدالتوں کے کٹہرے میں لایا جائے جہاں ان کو قانون کے مطابق سزا دی جا سکے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ کرپشن آج تک اہلِ سیاست کا خوفناک ہتھیار رہا ہے۔