جب سے امریکی فوجیں افغانستان سے نکلی ہیں، پوری دنیا میں اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ بیس برس میں امریکا نے افغانستان کی جنگ میں کیا کھویا اور کیا پایا؟ اسی طرح یہ دیکھا جارہا ہے کہ بیس برس میں افغانستان کا جو حال ہوا ہے، اس کے تناظر میں طالبان کس طرح حکمرانی کریں گے۔ یہ بھی غور کیا جارہا ہے کہ اس معاملے میں مجموعی طو رپر پاکستان کا کیا کردار رہا ہے اور اب مستقبل میں اس حوالے سے پاکستان کی کیا حکمتِ عملی ہوگی۔ امریکا کے چاروں صدور نے افغانستان کو بھگتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ افغانستان کے بعد عراق اور پھر لیبیا کے معاملے میں بھی امریکا ملوث ہوا ہے۔ آج ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ افغانستان میں کیا ہوتا رہا اور اب اس کا انجام کیا اور کب ہوگا۔ دنیا کے بعض ممالک خصوصاً پاکستان میں عام طور پر یہ تاثر ہے کہ افغانستان میں امریکا کو بدترین شکست ہوئی ہے۔ اس تاثر کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی جذباتیت کے رو میں بہہ کر اندازے قائم کرتے ہیں۔ حالات و واقعات کا تجزیہ کیے بغیر نتائج اخذ کرنا غیر سنجیدگی کی علامت ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ امریکا کا ہدف کیا تھا اور اس نے اس ہدف کو پورا کرلیا ہے یا نہیں؟ صدر اوباما کے دور سے ہی امریکا افغانستان سے نکلنے کی تیاری کررہا تھا۔ خاص کر وہ وقت انتہائی موزوں تھا، جب انہوں نے امریکی اور عالمی برادری کو اسامہ بن لادن کو ہلاک کردینے کی خبر سنائی تھی۔ خود امریکا میں اکثر سیاسی حلقوں کا خیال تھا کہ اس کامیابی کے بعد امریکا کا افغانستان میں رکنا بے معنی تھا۔ خیر، آئیے پہلے تجزیہ کرتے ہیں کہ امریکا افغانستان میں کیا کرنا چاہتا تھا۔ افغانستان پر قبضہ کرنا امریکیوں کا ہدف نہیں تھا، نہ انہوں نے کبھی یہ کہا کہ وہ وہاں جمہوریت قائم کریں گے۔ یہ بات انہوں نے عراق کے لیے کہی تھی۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد وہاں قائم سویلین حکمرانوں کو استحکام کی ضرورت تھی تاکہ دوبارہ سے القاعدہ منظم نہ ہوجائے اور داعش جیسی تنظیم جو مشرقِ وسطیٰ میں قائم ہوچکی تھی، وہاں قدم نہ جمالے۔ امریکیوں نے اپنی سی پوری کوشش کر لی کہ اس عرصہ میں افغان فورسز اتنی طاقت حاصل کرلیں کہ وہ خود اپنے ملک کا دفاع کرسکیں۔ اس کے لیے
امریکا نے انہیں جدید اسلحہ بھی دیا اور مالی طور پر بھی مدد کی۔ مگر کوئی بھی حکومت اس کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آئی۔ بلکہ اشرف غنی نے تو اسی بات پر زور دیا کہ امریکی افواج چھوڑ کر نہ جائیں۔ ان کی حکومت کرپشن میں لگی رہی اور حالات بالکل سنبھل نہ سکے۔ افغانستان میں اپنے دونوں ہدف مکمل ہوتا دیکھ کر صدر ٹرمپ نے پورا زور لگایا کہ ان کی فوجیں اب وہاں سے نکل جائیں۔ اس کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے کہ وہ یہ سمجھ گئے تھے کہ ایسا کرنے کے لیے طالبان سے گفتگو کرنا ضرور ہوگا۔ تین صدور کی حکمت عملی یعنی عسکری اقدامات غلط ثابت ہوئے تھے۔ انہوں نے بات چیت کے لیے پورا زور لگایا۔ اپنے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کو پورا اختیار دیا جو مذاکرات اور بات چیت کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور پاکستان و قطر کے ذریعے طالبان سے مذاکرات شروع کرائے۔ اشرف غنی چاہتے تھے کہ ان مذاکرات میں انہیں شامل کیا جائے، مگر طالبان اچھی طرح جانتے تھے کہ اشرف غنی کی حکومت میں دم نہیں، اس لیے سب سے پہلے بات چیت کے ذریعے امریکی افواج کو واپس بھیجا جائے۔ امریکا کو اشرف غنی یا کسی کی بھی حکومت سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ اس کے سامنے اپنے ملک کا مفاد تھا۔ امریکا نے آخر وقت تک طالبان سے مذاکرات اور معاہدے کیے، حتیٰ کہ طالبان کے کابل تک پہنچنے تک بات چیت جاری رہی اور اس طرح امریکی افواجی اس ضمن میں کسی خوں ریزی کے بغیر افغانستان سے نکل گئی۔ امریکی صدر بائیڈن پر جو تنقید خود امریکا میں بھی ہورہی تھی کہ انہوں نے مکمل انخلا کی کوئی مضبوط حکمتِ عملی نہیں بنائی تھی۔ جب فوجوں کو وہاں سے مکمل طور پر نکلنا ہی تھا تو پہلے سفارتی عملے اور اپنے شہریوں کو نکالنا چاہیے تھا۔ یہ بھی معلوم تھا کہ بہت سارے ان افغانیوں کو بھی لے جانا پڑے گا، جنہوں نے بیس برس میں امریکیوں کا ساتھ دیا تھا۔ ان کے لیے امیگریشن کا طریقہ کار بھی متعین کرلینا چاہیے تھا اور تمام لوگوں کو اس طرح پہلے سے ہی مجتمع کرلینا چاہیے تھا کہ افراتفری نہ مچتی۔ پھر یہ کہ انخلا کے لیے بگرام جیسا بڑا ائرپورٹ بھی استعمال کرنا چاہیے تھا۔
اب آئیے اس بات کا جائزہ لیں کہ امریکا کو کس قدر مالی نقصانات اٹھانا پڑے؟ ٹھیک ہے کہ 3ٹریلین ڈالر خرچ کیے گئے۔ مگر یہ بھی دیکھیے کہ کتنے ہزاروں ٹھیکے دار خود امریکا کے افغانستان میں انفراسٹرکچر پر کام کررہے تھے۔ ان رقوم میں ہی سے ان کو ادائیگی ہورہی تھی۔ خام مال خریدنے کے لیے انہیں رقوم دی جارہی تھیں، یا امریکا ہی سے بھیجی جارہی تھیں۔ ایک طرح سے جو رقم افغانستان کے لیے بھیجی جارہی تھیں، ان کا بیش تر حصّہ اپنے ہی ملک میں آ بھی رہا تھا۔ پھر ایک بہت سینئر امریکی صحافی کے بقول جب جنگیں لڑی جاتی ہیں تو پیسوں کو نہیں گنا جاتا ہے، بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہدف پورا ہوا یا نہیں۔
اب جائزہ لیتے ہیں طالبان اور پاکستان کا۔ طالبان اب پورے افغانستان پر قابض ہوچکے ہیں۔ امریکا کی اب بھی خاموش پشت پناہی ہے۔ وہ اپنا ہاتھ طالبان پر ضرور رکھے گا کہ کہیں چین اور روس کو کھلی چھٹی نہ مل جائے مگر دیکھنا یہ ہے کہ طالبان آج کے موجودہ حالات میں ملک کیسے چلائیں گے؟ ان کا معاشی مستقبل کیا ہوگا؟ تجارت کن ملکوں سے ہوگی۔ اگر عالمی برادری سے سفارتی تعلقات قائم نہیں ہوں گے تو کیا دنیا سے الگ تھلگ رہ کر نظامِ حکومت چلایا جاسکے گا؟ دنیا نے پوری نظر رکھی ہوئی ہے کہ افغانستان میں انسانی حقوق کی پامالی تو نہیں ہورہی۔ عورتوں پر کھلے عام تشدد کے قوانین پر عمل تو نہیں ہورہا ہے۔ القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں پھر سے سر تو نہیں اٹھا رہیں؟ خود پاکستان کے لیے یہ وقت پہلے سے بھی زیادہ کٹھن ہے۔ اگر طالبان پہلے کی طرح خود سر رہے تو پاکستان کو مذاکرات میں حصّہ لینے کا کیا فائدہ ہوا؟ پھر تحریکِ طالبان پاکستان ابھی تک پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کررہی ہے۔ اگر ان کا ہدف اب پاکستان کو افغانستان جیسا ملک بنانے کا ہوا تو کیا پاکستان کا مستقبل پریشان کن نہیں ہوجائے گا؟ چین طالبان کی کس حد تک مدد کرے گا؟ یہ کہنا بھی بہت مشکل ہے۔ ایسی صورت میں کہ جب خود چین القاعدہ سے جڑے ہوئے گروپ سے اپنے ملک میں پریشان بھی ہے اور تقریباً دس لاکھ چینی مسلمانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں حراستی کیمپ میں رکھا گیا ہے۔ طالبان کی نئی انتظامیہ سے یہ امید بھی نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایک جدید حکمراں کے طور پر ابھریں گے۔ عورتوں کو آزادی دیں گے اور جرائم کی سزا گردنیں اڑانے کو ختم کردیں گے۔ ابھی حال ہی میں پولیس مقابلے میں مارے جانے والے ملزموں کی لاشیں انہوں نے ایک بار پھر سرعام لٹکادی تھیں۔
امریکا کو افغانستان میں شکست ہوئی……؟
11:12 AM, 1 Oct, 2021