کراچی: سابق میئر کراچی فاروق ستار نے نیو ٹی وی کے پروگرام نئی بات سے گفتگو کرتے ہوئے کہا موجودہ بلدیاتی ایکٹ انتہائی فرسودہ اور انتہائی قدیم زمانے کا کہا ہے کیونکہ جب برطانیہ برصغیر پر قابض تھا تب بھی بلدیاتی قوانین اس سے بہتر تھے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت سے آنے والے بلدیاتی نمائندوں کو اخیتار منتقل نہیں کئے جاتے لیکن مشرف کے دور میں بلدیاتی نظام بہت زیادہ بہتر تھا اور آرمی کے دور میں جب بھی بلدیاتی نظام بنا وہ دنیا کے دیگر ممالک سے ملتا جلتا تھا۔ سابق میئر کراچی فاروق ستار نے کہا لیکن جب پاکستان میں جمہوریت زیادہ ہو جاتی ہے تو بلدیاتی اداروں کو کوئی اختیارات نہیں ملتے حالانکہ اٹھارویں ترامیم کے ذریعے وفاق سے اختیارات صوبوں کو سونپ دیئے گئے لیکن صوبائی حکومت نیچے اختیارات دینے کو تیار نہیں۔
فاروق ستار نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ایم کیو ایم اور اسکے بانی کی یہ ناکامی ہے کہ انہوں نے کراچی کے لئے کچھ نہیں کیا اور خود ہی اپنے چمن کو اجاڑ دیا۔ جبکہ 2015 میں ایم کیو کو دوبارہ موقع ملا لیکن وہ پھر بھی کچھ نہیں کر سکے۔ آج تک کسی سیاسی جماعت نے بشمول ایم کیو ایم نے کراچی والوں کا مقدمہ صیح انداز میں نہیں لڑا اور نہ ہی کراچی کو کوئی ایک جماعت چلا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر وسائل کی بات کی جائے تو اصولا کراچی کو ہر سال 300 ارب کا بجٹ ملنا چاہیئے کیونکہ وسائل کی کمی کی وجہ سے بھی کراچی کے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔ کراچی میں نئے اضلاع بننے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر فاروق ستار نے کہا کہ 90 کی دہائی میں ملیر ضلع بنا تو ایم کیو ایم نے مخالفت کی تھی اور پیپلز پارٹی نے ملیر کو ضلع بنانے کے بعد وہاں پر کون سی دودھ کی نہریں بہا دیں تھیں۔ مقامی لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے کی بجائے ان کو مزید وہاں بڑھایا گیا۔
سابق میئر کراچی فاروق ستار نے کہا لاثانی بنیادوں پر کراچی کو اضلاع میں تقسیم نہیں کرنا چاہیئے بلکہ اگر یہ کام کرنا بھی ہے تو اس کو انتطامی بنیادوں پر کیا جائے لیکن اس وقت کراچی کے ساتھ پولیٹیکل انجئیرنگ کی جا رہی ہے۔ فاروق ستار نے کراچی کے مسائل کا ذمہ دار پیپلز پارٹی کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ وسیم اختر بھی اس چیز کے ذمہ دار بنتے ہیں کیونکہ ان کی ترجیحات کچھ اور طرف چلی گئی تھیں۔
فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم کے ایک عہدایدر سے اختلافات تھا جو کراچی کو فنڈ ملے تھے اس حوالے سے وسیم اختر سے پوچھا تھا کہ مجھے حساب دیا جائے لیکن انہوں نے مجھے حساب نہیں دیا جس کے بعد ہمارے اختلافات بڑھ گئے اور میں ان سے علیحدہ ہو گیا۔ اس وقت سندھ حکومت بھی کوئی کچھ نہیں کر سکتی اور اگر ان سے حساب مانگا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ کے ایم سی میں چلیں جائیں تو سارا حساب مل جائے گا۔ انہوں نے کہا وفاقی حکومت کی مجبوری ایم کیو ایم کی سات سیٹیں ہیں اور وہ ان سے کچھ نہیں پوچھ سکتی کیونکہ تحریک انصاف کا کمپرومائز کرنا مجبوری ہے۔ صرف اور صرف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا احتساب کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے کیونکہ کراچی کو یومیہ 65 کروڑ گیلین پانی چاہیئے ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں 55 کروڑ یومیہ گیلین پانی مل رہا ہے جب مصطفیٰ کمال کراچی کے میئر تھے ہم کراچی کے پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے 65 کروڑ گیلین پانی یومیہ کی فراہمی کا منصوبہ بنا کے گئے تھے اور یہ مںصوبہ تین فیزوں میں مکمل ہونا تھا۔
فاروق ستار نے پروگرام کے دوران نے کہا اگر بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں تو پھر وہ غیر جانبدار رہ کر آزاد امیدوار کی حثیت سے الیکشن لڑیں گے تاکہ ایم کیو ایم کے جن چند لوگوں کو تکلیف ہے وہ پھر بات نہیں کر سکیں گے اور اگر میں کراچی کا مئیر بن گیا تو اس کو سب کے لئے کھول دوں گا اور قومیت کی بنیاد پر کراچی کی تقسیم نہیں ہو گی بلکہ کراچی پھر سب کا ہو گا ۔