ہماری معاشرت میں جتنا مذہب، مسلک اور بیرونی ممالک کے نظام ہائے زندگی و مملکت پر گفتگو ہوتی ہے شائد ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک کی معاشرت کرتی ہو۔ گورے نے یعنی یورپی ممالک نے سیکڑوں سال پہلے انگڑائی لی اور تین چار سو سال میں ان کے ہاں معاشرت، معاشرے، نظام نے ارتقا کے نئے دور میں قدم رکھا۔ سب سے پہلے انہوں نے اللہ اور بندے کے درمیان سے کسی بھی کردار کو نکال باہر کیا۔ چرچ اور ریاست کو الگ کرنے کی ابتدا کی گئی۔ انسانی بنیادوں، زمینی ضرورتوں، سماجی روایات اور بین الاقوامی ماحول اور قوانین کو مدنظر رکھ کر قانون سازی کی گئی جس میں ترامیم کے نام پر اصلاح اور ارتقا کی گنجائش رکھی گئی اس حوالہ سے بعد میں سیکولرزم کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ سیکولر ازم سے مراد دنیاوی امور سے مذہب اور مذہبی تصورات کا اخراج یا بے دخلی ہے، یعنی یہ نظریہ کہ مذہب اور خیالات و تصورات کو ارادتاً دنیاوی امور سے علیحدہ کر دیا جائے۔ سیکولر ازم جدید دور میں ریاست کو مذہبی اقدار سے الگ کرنے کی ایک تحریک ہے۔ سیکولر ازم کو اردو میں عموماً لادینیت سے تعبیر کیا جاتا ہے جو علمی و لغوی اعتبار سے درست نہیں سیکولر ازم کا موزوں اردو ترجمہ خیار فکر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی سیکولر ریاست کے شہریوں کو یہ فکری اختیار حاصل ہے کہ وہ جس نظریہ، فکر یا عقیدہ کی بھی انفرادی طور مشق کرنا چاہیں پوری آزادی کے ساتھ کر سکتے ہیں پس ان کی اس مشق کا براہ راست یا ماورائے راست سٹیٹ افیئرز یعنی امور مملکت سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ خیارِ فکر علمی و لغوی اعتبار سے انگریزی زبان کی اصطلاح سیکولر ازم کی تعبیر پر کماحقہ پورا اترتی ہے۔ سب سے پہلے اصطلاح سیکولر ازم کو ایک برطانوی مصنف جارج جیکوب ہولیاک نے 1851 میں استعمال کیا تھا، یہ اصطلاح دراصل چرچ اور ریاست کو الگ کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھی، گویا سیکولر ازم دراصل سیاست اور مذہب کے مابین تفریق کا نام ہے۔ یورپ نے تو ایک میگا قدم اٹھایا جس کے بعد 18 اور 19 ویں صدی کے وسط میں زراعت، ٹیکنالوجی، میڈیکل سائنس میں نئی راہیں دریافت کیں۔ ایجادات کے ساتھ ساتھ معاشرت کی اصلاح بھی چلتی رہی۔ جب مثال کے طور پر اگر پہیہ ایجاد کیا تو معاشرت پہئے سے واقف ہوئی آگے چل کر عصر حاضر کی ایجادات بھی معاشروں کو اور انسانوں کو ساتھ لے کر چلیں۔ ایسا نہیں ہوا کہ زرعی زمین کے پاس سے بائی پاس گزرا اور گدھا گاڑی کا سوار 70
ہزار روپے کا ایکڑ کروڑوں میں بیچ کر یکدم پراڈو میں بیٹھ گیا۔ پراڈو (استعارہ) یا انٹرکولر میں بیٹھا سوار دراصل گدھا گاڑی کا سوار ہی ہے جس کا رویہ اس ارتقائی مراحل سے محروم ہے جو ارتقا یورپ، امریکہ اور ترقی پسند قوموں کے اجتماعی طور پر نصیب میں آیا۔ بات مذہب، مسلک اور بیرونی ممالک کے طرز ہائے زندگی اور نظام زیر بحث رہنے سے شروع ہوئی تھی۔ بعض حقیقی دانشوروں کے بقول تو مولوی صاحب کا انسٹی ٹیوشن اسلامی طرز حیات میں موجود ہی نہیں یہ ملوکیت کے ساتھ پروان چڑھا جیسے یورپ میں کلیسا بادشاہ کا تابع اور بادشاہ کا پروموٹر رہا۔ اسی طرح ہمارا ملاں بھی بادشاہ کے ناجائز اختیار اور اقتدار پر مہر تصدیق ثبت کرتا رہا۔ دونوں کا صدیوں سے ساتھ تھا اور ساتھ جاری ہے۔ آقا کریمﷺ نے موذن مقرر کیے لہٰذا مستقل انسٹی ٹیوشن موذن کا ہے مدینہ میں حضرت بلالؓ موذن تھے تو مکہ اور دیگر مقامات پر مختلف صحابہؓ موذن تعینات ہوئے۔ فقیہ ہونا کبھی پیشہ نہ رہا۔ حضرت معاذ بن جبلؓ ایک لاجواب فقیہ تھے بہرحال میں نے مذہب کے حوالے سے نہیں چند فقرے تاریخ سے لیے تھے بات ہو رہی تھی کہ جتنا مذہب زیر گفتگو رہتا ہے اگر کروڑواں حصہ بھی عمل ہوتا، آج ہمارا معاشرہ دنیا کا خوبصورت ترین معاشرہ بن جاتا ہے مگر جب منافقت نے رواج پایا۔ مذہبی حوالہ تقریری ٹچ ٹھہرا، مذہب مسلک کاروبار ہوا تو نتیجہ یہ ہے کہ جن چوکوں، چوراہوں، کھمبوں، درختوں پر فلمی اداکاروں کے بل بورڈ آویزاں ہوتے تھے آج مذہبی اور مسلکی حلقوں کی نمائندگی کرنے والوں کے ہیں، غول کے غول اور جھرمٹ کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ مذہب صدیوں پرانا انسان کا آخری سہارا رہا ہے جو حقیقی معنوں میں روح کی غذا ہے مگر اس پر قبضہ پیشہ ور لوگوں نے کر لیا۔ ہماری معاشرت کی تو عجیب صورت گری کر دی گئی، ہمارا ملکی نظام آمریت، جمہوریت، جرگہ، قبائلی، ہائبرڈ، شہری، دیہاتی نہ جانے کتنے نظام ہائے زندگی کی بنیاد پر قائم ہوا، آئین اور قانون کی حکمرانی کی جگہ حکمرانوں کی خواہش اور حکم نے لے لی۔ آزادی کے حوالے سے ہم کبوتر کی طرح غلام ہیں جو چھتری سے اڑ کر پھڑ پھڑا کر پھر اسی چھتری اور پنجرے میں آن بیٹھتا ہے، ہمارا نظام مذہبی ہے نہ سیکولر، آئینی ہے نہ قانونی ایک طاقت ہے جو محلے کی سطح سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک رائج ہے۔ وطن عزیز کا خیال دینے والے ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے خودی کا درس دیا۔ ہم نے خود داری کو گروی رکھ کر حکمرانوں کے ہاں قرب حاصل کرنا چاہا۔ مردم پرستی بت پرستی سے زیادہ خوفناک ہے۔ لالچی کبھی آزاد نہیں ہو سکتا۔ ہم جانتے بوجھتے ہوئے بھی لٹنے کے درپے رہتے ہیں۔ ڈبل شاہ نامی شخص نے جس حوالے سے شہرت پائی، دنیا کو علم ہے۔ وہ شخص نیب نے گرفتار کیا، جیل ہوئی اور آپ ملاحظہ فرمائیں کہ جیل کے چھوٹے افسران نے اس کو پیسے دے دیئے، متمول حوالاتیوں اور قیدیوں نے اس کو پیسے دے دیئے۔ مجھے گوجرانوالہ سے ایک دوست نے کہا کہ ہماری اس سے ملاقات کا بندوبست کرا دیں میں نے کرا دی۔ ان کے معاملات بھی طے پانے کے قریب تھے کہ میں نے ازراہ ہمدردی انہیں سمجھایا کہ پہلوان جی آپ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس فراڈ کی مشین میں سر دے رہے ہیں۔ وہ شائد باز نہ آتے مگر ڈبل شاہ کی زندگی نے ہی وفا نہ کی، پہلوان جی تو وفا پہ تلے ہوئے تھے۔ ہم خود ذمہ دار ہیں، کسی نے کہا تھا کہ جب تک ایک بھی لالچی زندہ ہے فراڈیے کا کام نہیں رک سکتا۔ میرے پاس جب بھی مقدمہ آیا ہے یہی آیا کہ فلاں فراڈ یہ پیسے کھا گیا ہے۔ بہرحال یہ معاشرت کا اجتماعی چہرہ بن کر سامنے آیا ہے ہم کب سیکولر ہوں گے۔ ہم کب اسلامی نطام ریاست رائج کریں گے ہم کب آئین و قانون کے تابع ہوں گے کہ اسی طرح ہی حکمرانوں کے قرب کے حصول کے لیے در بدر ہوتے رہیں گے۔ کبھی طاقتور اداروں کے سربراہوں سے مدد مانگتے اور پھر گلہ شکوہ کرتے نظر آئیں گے کبھی چیف جسٹس سے کہیں گے کہ اگر آپ بھی ہمارے نہ ہوئے تو ہم کدھر جائیں گے! کبھی الیکٹیبلز کے پیچھے بھاگیں گے کبھی مذہبی، مسلکی علم اور بیان و زبان کی مہارت فروخت کرتے پائے جائیں گے کیا ہم دنیا ڈھونڈتے ڈھونڈتے یونہی قبروں میں اترتے چلے جائیں گے یا دین کے مطابق کچھ اعمال آگے اور کچھ دنیا میں یاد کیے جانے کے لیے چھوڑ جانے کا سوچیں گے۔ آج ملک میں انفرادی طور پر کتنے لوگ ہوں گے جو اپنی جیب سے تجہیز و تکفین پر اٹھنے والے خرچ کے متحمل ہیں کیا دوسرے ہی قبروں میں اتاریں گے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ مڈل کلاس مٹ گئی، غریب اور فقیر رہ گئے یا پھر دو تین فیصد امیر ترین رہ گئے۔ تو پھر یہی رہیں باقی بھیڑ بکریاں تو آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے کے دھارے میں زندگی کے چکر کاٹ کر رخصت ہو جائیں گی۔ مذہبی پیشوا، سیاسی رہبر، بیورو کریٹ حتیٰ کہ حاکم کی صورت میں پھرنے والے بھی دراصل دنیا ڈھونڈن والے، در در پھرن حیرانی۔