شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے جاوید نامہ (خطاب بہ جاوید) میں فرمایا کہ:”میں اس زمانے سے ڈرتا ہوں جس میں تم پیدا ہوئے۔ کیونکہ یہ ز مانہ جسم میں غرق ہے اور روح کو نہیں پہچانتا۔ جب روح کے قحط کے سبب جسم ارزاں ہو جائیں تو مردِ حق پنے اندر چھپ جایا کرتا ہے۔ اسے ڈھونڈنے کی کوشش کرو تو دکھائی نہیں دیتا حالانکہ تمھارے سامنے ہوتاہے۔ مگر تم اس کی تلاش کے لیے اپنی تگ و دو جاری رکھو خواہ تمہیں کتنی ہی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔“
بلا شبہ علامہ اقبالؒ ؔ ایک عہد ساز شخصیت ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ایک پورے دور اور ایک پوری تاریخ کو بیان کیا ہے۔ ان کی شاعری کی اہم بات یہ کہ جب ہم ان کی شاعری کو پڑھتے ہیں تو گویا یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا قرآن حکیم کی تفسیر پڑھ رہے ہوں۔
اقبال جس دور میں اقبالؔ بنے وہ مشرقی اقوام کے لیے سیاسی بدحالی اور سماجی اضطراب کا دور تھا اور یہی درد ان کی شاعری میں نظر آیا ہے اور انہوں نے مسلمانوں کو ان کی عظمتِ رفتہ سے شاعری کے اسلوب میں متعارف کرایا ہے۔ ان کی شاعری میں فکر، تاریخ اور علمی حقائق پر تبصرے بھی ہیں لیکن ان کا سب سے بڑا فنی کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پیغام، اپنی فکر اور فلسفے کو شاعری کا ادب عالیہ کا لباس پہنا ہے۔ اقبالؔ کی فکر اور فلسفے سے مفکرین اور ناقدین نے اختلاف بھی کیا ہے لیکن اس کے سب معترف ہیں کہ ان کی شاعری میں شعریت کے محاسن اور مقصد کے ساتھ سوز، حسن، سرور، نغمگی اور آہنگ کے ساتھ تخلیق کا جو اعلیٰ معیار موجود ہے اور یہ میعار انہوں نے فارسی اور اردو کلام دونوں میں برقرار رکھا ہے۔
عالم اسلام سے ان کی بے پناہ محبت تھی اور دوسری رسول اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ کے ساتھ بے مثال اور بے پناہ عشق۔ اس عشق کا تو یہ عالم تھا کہ اس کا اندازہ لگایا ہی نہیں جاسکتا۔ اقبالؔ کا فقر و استغنا بھی بے مثال تھا۔ زندگی کی مادی آسائشوں سے قطعی پاک اور بے نیاز۔ وکالت بھی کرتے تو اس حد تک کہ گھر کا خرچ چلتا رہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان کی زندگی میں ان کی تصانیف کی اشاعت کسی معقول آمدنی کا ذریعہ نہ بن سکیں۔ گھر بنایا تو بیوی کے بچائے ہوئے روپوں سے اور فوت ہوئے تو بطور اپنے فرزند کے کرایہ دار۔ زندگی کے آخری ماہ کا کرایہ بھی ادا کرکے وفات پائی اور بنک میں جو سرمایہ تھا وہ ان ہی کی خواہش کے مطابق کی تجہیز و تکفین پر خرچ ہوا۔ ان کی جرأت اظہار اور حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کی جرأت کا بنیادی سبب ان کا فقر ہی تھا۔ اقبال یقینی طور پر عشق، فقر، جرأت، حریت کا پیکر تھے۔
علامہ اقبال کے فکر ی پس منظر جڑا ہوا ہے۔ اٹھارویں صدی میں سلطنت عثمانیہ، روس اور برطانیہ کے اقتدارکے زیر اثر دنیائے اسلام کا اخلاقی، سیاسی اور اقتصادی زوال بدحالی تک پہنچ گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں عرب، شمالی افریقہ، جنوبی روس اور ہندوستان میں وہابی طرز کی اصلاحی تحریکیں ابھریں۔ اگرچہ ان تحریکوں کا عملی طور پر باہمی ربط نہ تھا لیکن مقاصد کے لحاظ سے یکسانیت پائی جاتی تھی۔ ان مقاصد میں تصوف، ملائیت اور سلطنت عثمانیہ کی مطلق العنانیت کے اثرات کو ختم کرنا اور اسلام کی اصل اور حقیقی فکر کی تلقین کرنا تھا۔ لیکن جب یورپ کی اقتصادی ہوس بڑھی اور اس نے بعض اسلامی ممالک پر طاقت کا تسلط ہوا اور بعض کا اقتصادی استحصال ہوا۔ مغرب کی اس در اندازی سے مسلمان مغرب کے جدید تصورات آئین پسندی، سیکولر ازم، نیشنل ازم اور ریڈیکل ازم ایسے تصورات سے متعارف ہوئے۔
اقبالؔ برِصغیر ہندوپاک میں روشن خیالی اور لبرل ازم کے سلسلے کے آخری چراغ ہیں۔ ان کا 1907ء کے بعد کا کلام فرد اور جماعت کی اہمیت، تخلیقی عمل اور جہد مسلسل کے اصرار پر مشتمل ہے اور اس سارے کلام میں ان کا مطمع نظر مسلمانان عالم اور خاص کر مسلمانان ہند کی سماجی، اخلاقی، اقتصادی اور سیاسی ترقی ہے۔
اقبال کا اختصاص یہ ہے کہ انہوں نے زندگی کے ہر پہلو کو ایک فلسفیانہ اساس قائم کرکے اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا ہے۔ اقبال کا طرز تحریر نہ تو مناظرانہ رہا اور نہ عذر و معذرت خواہانہ۔ انہوں نے نہایت جرأت کے ساتھ اس فلسفے کو بیان کیاکہ خودی کی تعمیر سے مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمتِ رفتہ کو بحال کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے ”مردِ مومن“ کی اصطلاح کا تصور بھی پیش کیا وہ مردِ مومن جس کی جلوت اور خلوت مکمل اسلامی رنگ میں ڈھلی ہوئی ہو۔
اقبال کی ایک اور اہم خصوصیت ان کی اجتہادی فکر ہے۔ اقبال مسلمانوں کے علم میں ایک خاص قسم کی تبدیلی و تجدید (Reformation) کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں، اجتہاد کو مسلمانوں کی زندگی میں جاری و ساری دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے سامنے ایک تصور تو یہ تھا کہ بر صغیر میں مسلمانوں کی کوئی ریاست قائم ہو۔ اقبال ترکوں کے خلافت کو ختم کرنے کو درست اقدام سمجھتے تھے اور جمہوریت ان کے خیال میں اسلام کی حقیقی تعلیمات کی طرف رجوع تھا۔یہ ان کا شوق اجتہاد ہی تھا کہ وہ اسلامی ممالک میں آئین ساز مجالس کے قیام کا خیر مقدم کرتے ہوئے مسلم اقوام پر زور دیتے تھے کہ وہ اپنے قدیم اداروں اور روایات پر نظر ثانی کریں۔ وہ جدید تجربات کی روشنی میں شریعت اسلام کی تعبیر کے لیے اجتہاد پر زور بھی دیتے تھے لیکن ساتھ ہی اس پر شرط بھی رکھتے تھے کہ اجتہاد کو اس طرح کیا جائے کہ قوانین شریعت کی اصل روح ختم نہ ہونے پائے۔
دوسرا یہ کہ وہ پورے عالم اسلام کو زندہ و بیدار دیکھنا چاہتے ہیں۔ہماری پرانی عظمت کی بازیافت کے لیے ان کے دل میں بے پناہ تڑپ ہے۔ جس کے لیے وہ ترکِ دنیا کے بجائے ترک ِفرنگ کی نصیحت کرتے ہیں۔ اقبالؔ اقوام مشرق کو مغربی استعمار کی قید سے رہائی کی جو تدابیر بتاتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اقوام مشرق کو مغرب کی نو استعماری سازشوں سے خبردار رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے کھدر کو اغیار کے ریشم پر ترجیح دینا اور اپنے خام مال و وسائل کی حفاظت کرنا ہے۔دین کے ساتھ ان کی محبت بڑی غیر معمولی ہے۔